مزدور کا دن،کیوں اور کیسے۔۔؟تحریر:حبیب الرحمن


ہر سال ملک پاکستان کے علاوہ پوری دنیا میں یکم مئی کو مزدوروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے اس موقع پر مزدوروں کے استحصال کے خلاف مختلف ممالک اور مختلف شہروں میں مختلف سیاسی و غیر سیاسی تنظیمیں اور مزدوروں کی تنظیمیں اس دن کے حوالے سے ریلیوں اور جلسے جلوسوں کا انعقاد کرتی ہیں۔۔۔آخر یہ دن ہر سال کیوں اور کیسے منایا جاتاہے آئیے تاریخ کے اوراق سے پوچھتے ہیں۔
                             

پہلے پہل مزدور کو سولہ سولہ گھنٹے کام پڑتا تھا اور وہ بھی ہفتے کے پورے سات دن۔کوئی چھٹی یا وقفہ نہیں ہوتا تھا اور تنخواہ بھی اتنی خاص نہ تھی۔اگر کوئی مزدور دوران کام گر جاتا یا بیمار پڑ جاتا تو اس دوران ہونے والا خرچہ بھی وہ اپنی جیب سے ہی ادا کرتا تھا کوئی اضافی ا لاؤنس وغیرہ بھی نہیں ملتا تھا.اس طرح مزدوروں کے بہت سارے حقوق غضب کئے جاتے تھے ،مزدور اور غریب طبقہ کا بہت استحصال کیا جاتا.ان مسائل کو حل کروانے کے لیے امریکہ اور یورپ میں مزدوروں نے مختلف تحریکیں چلائیں۔یہ 1884ء کی بات ہے جب فیڈریشن آف آرگنائزڈ ٹریڈرز اینڈ لیبریونینز نے اپنا ایک بڑا اجلاس منعقد کیا جس میں انہوں نے ایک قرارداد پیش کی۔ قرارداد میں کچھ مطالبات پیش کیے گیے جس میں مزدوروں کاسب سے اہم مطالبہ یہ تھا کہ کام کا دورانیہ سولہ گھنٹے سے کم کرکے آٹھ گھنٹے کیا جائے.مزدوروں کاکہنا تھا کہ آٹھ گھنٹے کام کے,آٹھ گھنٹے آرام کے اور آٹھ گھنٹے ہماری مرضی کے۔یوں مزدوروں کے حقوق کے لئے ایک بڑی آواز بلند ہوئی۔
اسی مطالبے کو آئندہ آنے والے مئی کے مہینے سے لاگو کروانے کی تجویز پیش کی گئی اورتجویزمیں یکم مئی کا دن مقرر کیا گیا ۔مگر قانونی طور پر اسے منظور کروانا تھا کافی تگ ودو کے بعد بھی یہ مطالبہ سرکاری طور پر منظورنہ ہوا تو مزدوروں نے ہڑتال تحریک کا اعلان کر دیا جس کو مطالبات کی منظوری تک جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا۔عملی طور پر اس تحریک کا آغاز یکم مئی 1886ء کو امریکہ کے شہر شگاگو سے ہوا اور اس میں تقریبا ڈھائی لاکھ مزدوروں نے شرکت کی۔مزدوروں کا سمندر دیکھ کر وہاں کی حکومت گھبراہٹ کا شکار ہو کر جبر و تشدد پر اتر آئی۔پولیس کو اسلحہ کے ساتھ لیس کر کے اس تحریک سے نبٹنے کے لیے بھیج دیا گیا۔ پہلے روز تحریک کامیاب رہی دوسرے روز یعنی دو مئی کو بھی پر امن دن گزرا۔ تیسرے روز پولیس نے ایک فیکٹری میں فائرنگ کر دی جس کے نتیجہ میں چار مزدور ہلاک ہوئے اور کئی زخمی ہوئے جبکہ چوتھے روز ہڑتال میں موجود مزدوروں سے آخری مقرر کے خطاب کے دوران پولیس نے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی جس سے کئی مزدور جاں بحق اور زخمی ہوئے۔اور بعد میں پولیس نے یہ بہانا بنایا کہ مزدوروں نے پہلے ان پر حملہ کیا ہے۔اس لڑائی کے دوران ایک مزدور نے اپنا سفید جھنڈا زخمی مزدور کے خون میں لپیٹا اور دوبارہ اسے لہرا دیا۔اسی نسبت سے آج بھی مزدور کا جھنڈا سرخ ہے۔اس کے بعد رمنڈ لیوین کی تجویز پر 1890ء میں یکم مئی یوم مزدور منانے کا باقاعدہ اعلان گیا۔جو بعد میں عالمی سطح پر منایا جانے لگا.پاکستان میں یوم مزدور کا آغا ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہوا..
تو اس طرح جبرو تشدد کے ذریعے مزدوروں کا پہلے دن سے ہی استحصال کیا جا رہا ہے اور آج بھی اسی طرح مزدور اس کا سامنا کر رہے ہیں آج بھی مزدور کی آزادی کے نام پہ دن تو منایا جاتا مگر آرام امیر لوگ کرتے اور مزدور اس دن بھی کام کرتا ہے۔اور اگر اس دن کوئی مزدور چھٹی کر بھی لے تو اسے یا تو مالک کی جانب اس کے ازالے کے لئے دوگنا حاضریاں دینا پڑتی ہیںیا پھر اس کے اپنے ہی گھر کے چولہے کی گرمی کم ہونے لگتی ہے۔
اجرت میں نہ ہوا اضافہ اور بھی کام بڑھ گیا 
مزدور کا دن تھا۔۔۔۔۔۔.امیر کاآرام بڑھ گیا 
مزدوروں کے ساتھ ناانصافی اور استحصال کا اندازہ اب آگے ان الفاظ سے لگاتے ہیں کہ یکم مئی کا دن آتے ہی مزدورکس طرح دوبارہ محنت و مشقت کی چکی میں پسنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔
ہوا یوں کہ ’’ایک مزدور اور اس کی بیوی پریشان بیٹھے تھے۔ بیوی نے پوچھا تم کیوں پریشان ہو؟مزدور بولا!'میں جن صاحب کی کوٹھی پر مزدوری کر رہا ہوں، کل ان کی چھٹی ہے۔ جس دن ان کی چھٹی ہوتی ہے، وہ کوٹھی پر آ کر ایک ایک انچ کا جائزہ لیتے ہیں، کوئی نقص نکلآآئے تو ٹھیکیدار ہم مزدوروں کے پیسے کاٹ لیتا ہے۔ بس یہی پریشانی ہے۔۔۔اور تم بتاؤ تم کیوں پریشان ہو؟''بیوی بولی: ''جن ڈاکٹر صاحبہ کے گھر میں کام کرتی ہوں، کل ان کی چھٹی ہے۔ جس دن ان کی چھٹی ہو اس دن سر پر کھڑے ہو کر کام کرواتی ہیں۔ کہتی ہیں کہ فرش کی ایک ایک ماربل ٹائل میں تمہاری شکل نظر آنی چاہیے۔ پتہ نہیں کل کس بات کی چھٹی ہے!''ان کا چھوٹا بیٹا بولا:''میں بتاتا ہوں، کل یومِ مزدور ہے۔ اس لئے سب بڑے صاحب چھٹی کریں گے!''مزدور اور اس کی بیوی نے حیرت سے بیٹے کو دیکھا اور پوچھا:''تمہیں کیسے پتہ؟''بیٹا بولا: ''آج استاد کہہ رہا تھا کہ صبح سات بجے سروس سٹیشن پہنچ جانا۔ سات بجے سے دیر ہوئی تو پسلیاں توڑ دوں گا۔ کل یومِ مزدور ہے اور صاحب لوگوں کی چھٹی ہے، گاڑیوں کا زیادہ رش ہو گا۔۔۔ ''
مزدوروں کے دن سے بے خبر مزدور یکم مئی کوبھی اسی طرح کام میں مصروف ہوتے ہیں بلکہ ان کے لئے تو پہلے سے بھی کام بڑھ جاتا ہے۔مزدوروں کے لئے مئی کی پہلی تاریخ خوشی و آزادی کا دن نہیں بلکہ وہ اسے مشکل و سخت محنت و مشقت کے دن سے یاد کرتے ہیں۔ اسی لئے شاعر ان حالات کو یوں بیان کرتا ہے۔
بوجھ کندھوں سے کم کرو صاحب..!!! 
دن   منانے      سے      کچھ      نہیں   ہوتا 
Share on Whatsapp

About Jhang Tezz

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں