جھنگ جس کی فیصل آباد، سرگودھا ،ملتان اور ابھی کل ہی کی بات ہے چنیوٹ ،ٹوبہ اس کی تحصیل ہوا کرتے تھے۔اب جھنگ کے نام سے جھنگ کے لوگوں کے علاوہ کوئی واقف ہی نہیں جھنگ کی تاریخ میں جاوں تو سیاھی اور صفحات کم پڑ جا ئے گے۔ جس جگہ آج جھنگ آباد ہے یہاں گھنا اور وسیع جنگل تھا۔ ایک چھوٹی سی بستی تھی جیسے خانہ بدوشوں کی ہوا کرتی ہیں یہاں برہمن گڑھ کا قلعہ اور شہر تھا اسی برباد قلعہ پراب ہیر کا دربار ہے۔ مورخیں لکھتے ہیں کہ حضرت شاہ جلالؒ بخاری یہاں سے گزر کر بھیرہ، خوشاب ، چنیوٹ ،ساہیوال ۔شاہ پور وغیرہ کے علاقوں میں یہاں سے گزر کر آتے جا تے تھے انہوں نے اس جنگل میں شہر آباد کرنے کا اردہ کیا چونکہ جھنگی یا جھانگ کے نام سے علا قہ پہلے مشہور تھا ۔اس کا نام جھنگ رکھ دیاگیا۔ پاکستان کے آزاد ہونے سے لے کر اب تک جھنگ بدحالی اور پسماندگی سے باہر نہیں نکل سکا۔ جھنگ نے بڑ ے بڑے لوگ پیدا کیے ہیں پہلے نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام ، ڈاکٹر طاہر القادری اور بہت سارے ناول، کتابوں کے مصنف اشتیاق احمد کا تعلق بھی جھنگ سے ہے۔ حضرت پیر باہو سُلطانؒ، حضرت پیر شاہ جیونہؒ ، اور سچے عاشق ہیر رانجھا کا دربار بھی اسی سرزمین پر ہے۔
فیصل آباد، ملتان ، سرگودھا کی بات کیا کریں ٹو بہ ، چنیوٹ جو جھنگ سے بہت زیادہ ترقی کر چکے ہیں جھنگ سے الگ ہونے کے بعد ان علاقوں کی تقدیر ہی بدل گئی ہے پر جھنگ کی بدقسمتی بدحالی کا یہ حا ل ہے کہ یہاں نہ تو کوئی اچھا ہسپتال ہے ہا ں یاد آیا ایک ہسپتال ہے جہاں سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں جہاں پہ تھوڑے سے سریس مریض کو فیصل آباد ریفر کرنا پڑتا ہے ۔ ادھر ون وے روڑ تو کیا ہو گا سنگل روڑ پر بھی پورے ضلع میں کوئی ٹریفک اشارہ تک نہیں ۔ جھنگ پسماندگی کی دلدل میں دھنسا جا رہا ہے اس کے بازو اس سے الگ ہو گے ہیں اسی کی وجہ یہ تھی کہ جھنگ کے وڈیرہ جاگیردارسسٹم اور انتقامی سیا ست اُن کے علاقوں کو بھی متاثر کر رہی تھی ۔ انتقامی سیاست کا اندازہ اسی چیز سے ہو جاتا کے میں جھنگ کی چند گلیوں کو برسوں سے گیس اور سولنگ نہیں دیے گئے کیونکہ وہاں کی عوام موجودہ حکمران کے ووٹر نہیں تھے ۔ جھنگ میں تعلیم کا معیار بھی کسی سے چھُپا نہیں جھنگ کے ارد گرد کے دیہاتوں ، قصبوں کے علاقوں میں سے ہزاروں طالب علم میلوں کا سفر بسوں میں کر کے روز جھنگ کے واحد ڈگری کالج آتے ہیں ۔ غریب خواتین کے لیے تو تعلیم کا حصول کسی صورت ممکن نہیں ہاسٹل یا آنے جانے کا خرچ اُن کے والدین برداشت نہیں کرسکتے۔ اس کے زمہ دار یہاں کی سیاست دان ہیں ےیا پھر جھنگ کی عوام اس کا فیصلہ آج تک نہیں ہو سکا۔ جھنگ پر حکومت کرنے والوں کی فہرست اتنی لمبی نہیں ہے یہاں پہ چند خاندان برسوں سے حکومت کر رہے ہیں۔ جھنگ میں ایک خاندان تین بار ایم این اے بن چُکا ہے وفاقی وزیر تعلیم بھی رہ چکے ہیں وزیرتعلیم ہونے کے باوجودہ جھنگ کے لیے یونیورسٹی منظور نہ کر وا سکے ۔ جھنگ کا المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں انتقامی سیاست کی جاتی ہے ایک پارٹی کوئی کام کروائے گی باقی پارٹی اُسے انا کا مسئلہ بنا لیں گے۔ ادھرکی سیاست چند گھروں کی غلام بن کر رہ گئی ہے سخت لفظوں کا ا ستعمال کروں تو لونڈی بن کے رہ گئی ہے یہا ں کی سیاست اور ووٹ کا ایک ہی نظریہ شیعہ ،سُنی۔ اسی کی بنیاد پر سیاست کی جاتی ہے اور ووٹ مانگااوردیا جا تا۔ ہر سال محرم الحرم میں یہاں امن وامان کی صورتحال کو ٹھیک رکھنے کے لیے فوج کو طلب کیا جاتا ہے
جھنگ کی حالت کی زمہ دار کچھ حدتک عوام خود بھی ہے جو مذہبی ووٹ نہیں دیتے وہ یہاں شخصیت کو ووٹ دیتے تھے اور دے رہے ہیں یہاں پہ اب بھی ووٹ صرف اس بات پر بھی دے دیا جاتا کے فلاں امیدوار اتنا بڑا آدمی ہو کر مجھ سے ووٹ ما نگنے آیا۔ جھنگ وہ واحد شہر ہے جس کے لاری اڈہ آپ کو سنسان ملے گا مین ایوب چوک جہاں سے آدھے ملک کی ٹریفک گزر کر جاتی ہے وہاں غیر قانونی اڈے قائم ہیں ۔جہاں کی ایک پل تو بنتی نہیں جب بن جائے تو کس کے نام کی افتتاحی بورڈ لگے گا اس بحث پر پل کا کام رک جانا ۔ جھنگ میں چند فٹ کی گلی پہ لاکھوں کی تعمیر کا بورڈ بڑی شان بے نیاز لگا دیکھائی دینا حیران کن امر نہیں۔جہاں کے ٹی ایم اے کا عملہ شہر میں کام کرنے کی بجائے سیاست دانوں کی زمینوں اور گھروں میں کام کرے وہاں شہر کی صفائی کا اندازہ بخوبی ہو جا تا ہے یہاں تجاوزات کون ہٹائے گا یہاں نقشہ پر تعمیر کون کروائے گا جھنگ میں انتظامیہ ہے بھی یا نہیں ۔جھنگ کی اکثریت اب جھنگ کو ڈویژن بنے کا شرمندہ خواب دیکھ رہی ہے ۔
یہ وہی جھنگ تھا جس کے بارے میں قُدرت اُللہ شہاب بہت بڑی ہستی بہت ساری کتابوں کے مصنف برسوں پہلے جھنگ میں بطور ڈی سی آئٓے تھے اپنی کتاب شہاب نامہ میں لکھتے ہیں ؛جو شان میں نے جھنگ کے شہید روڑ پہ بیٹھے موچی کی دیکھی ہے آج تک بڑے سے بڑے حکمران یا انگریز جنرل کی بھی نہیں دیکھی، آہ وہ شہر لا وارث میرا بھولا بسرا دیس۔


0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں