جھنگ کے انقلابی لوگوں تک...تحریر:عامر خان



سوز جگر سے لکھا گیا کالم جس میں دھرتی ماں کا درد دل دکھائی دیتا ہے..............................
وزیر اعظم کی جھنگ آمد ہوئی کسانوں میں امدادی چیک تقسم کیے جا رہے تھے کہ ایک طرف سے آواز آئی، جھنگ کو ڈویژن بناﺅ، وزیراعظم صاحب کو غصہ آ گیا اور بولے ڈویژن بنانے کی بات کہاں سے آگئی چیک تقسم ہو گئے وزیراعظم چلے گئے جھنگ کے سیا ست دان اس دوران خاموش رہے ۔ لوکل اخباروں میں اس بات کو خاصی اہمیت دی گئی ۔یہ نعرہ جھنگ کے چند انقلابی لوگوں کی طرف سے لگایا گیا اور بعد میں اخبارت میں سے اس خبر کو کاٹ کر سوشل میڈیا پر لگا کر ان انقلابی لوگوں نے خوب داد وصول کی۔ اور اب پاک چین راہدرای کو جھنگ سے گزارا جائے کا مطا لبہ سوشل میڈیا پر دیکھا تو مجھے ایسا لگا جیسے کسی نے منہ پر ذور دار تھپڑ مارا ہو ۔مجھے ایسا کیوں لگا اس کی کے لیے یہ چند سطریں ان انقلابی لوگوں کے نام کرنا چاہتا ہوں ۔
لاہور سے موٹروے پر سفر کر کے بہت اچھا لگتا ہے اچھی صاف ستھری ون وے سٹرکیں سب بہت اچھا ہوتا موٹروے کو وسیع کرنے کے لیے کام جاری رہتا فراٹے مارتی گاڑیاں گزر رہی ہوتی ہیں رہنمائی کے لیے جگہ جگہ سائن بورڈ ہوتے ہیں لاہور سے آتے ہوئے اپنے شہر جھنگ سے تیس کلومیٹر پہلے ہی موٹروے ختم ہو جاتی ہے۔ اب اس قصے کو روک دیتے ہیں دوسری طرف جھنگ میں چھ سال کی بچی اپنے والدین کے ساتھ موٹر رکشہ پر سوار نواحی علاقے کی طرف جا رہے تھے کہ سامنے سے آنے والی بس نے رکشہ کو ٹکر ماری جس سے چھ سالہ عمارہ اور اس کے والد موقعہ پر جان سے گزرگئے اور عمارہ کی والدہ شدید زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کر دی گئی اس سے پہلے جھنگ میں سات بچے جو اپنے گھر میں بے خبر سو رہے تھے اُن پر ایک ٹرک قیامت بن کے گر گیا اور سات بچے اپنے خالق سے جا ملے یہ خاندان رنگ روڑ کے ساتھ ڈھلان میں اس طرح آباد ہے کہ سڑک اُن کے گھروں کے اُوپر سے گزرتی ہے ٹرک کا ایکسل ٹوٹا اور حفاظتی دیوار یا جنگلہ نہ ہونے کی وجہ سے ٹرک اُن پہ گر گیا ۔سات بچوں پر ٹرک گر جائے یا چھ سالہ عمارہ بس کے سامنے مر جائے ہمارے جھنگ کے لوگوں افسوس کے علاوہ کچھ نہیں آتا جھنگ کے انقلابی لوگوں ایک اور افسوس کے لیے تیار رہو جھنگ ہیڈتیریموں پل جو انگریزوں نے بنایا تھا جس پر سے روزانہ ہزاروں گاڑیاں گزرتی ہیں درجنو ں دیہاتوں کا واحد راستہ ہے سب سے بڑی بات نئے پاور پلانٹ جس کا افتتاح بھی وزیر اعظم صاحب نے خود کیا تھا اس پلانٹ کی بھاری مشنری بھی اس پل سے گزر کر جانی ہے جس کی معیاد کئی برس پہلے ختم ہو چکی ہے اور ہر جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اس کے گرنے کا انتظار کرو اس سا نحہ کے بعد واویلا کرکے شوشل میڈیا پر بہت شہرت ملے گی ۔پورے جھنگ میں کوئی ون وے روڑنہیں لوگ روز مرتے ہیں جھنگ پاکستان بنے سے پہلے کا آباد ہے لیکن اس سے سلوک سو تیلی ماں سے بھی برا کیا جا رہا ہے ۔جھنگ کا میڈتا تو ویسے کوٹھی والوں کی اجازت کے بغیر نیوز نہیں چلا سکتا نہیں تو برسوں سے جھنگ کے مین مرکز میں غیر قانونی بس اڈے قائم نہ ہوتے لاری اڈا سنسان نہ ہوتا اگر میڈیا یرغمال نہ ہوتا تو لاہور سے ملتان تک نئی بنے والی موٹروے گوجرہ کی بجائے جھنگ سے گزرتی لاکھوں کا خرچ اور آجاتا پر جھنگ سے دشمنی کے چکر میں موٹروے کو جھنگ سے دور جنگل نما بستی سے انٹر چینج نہ دیا جاتا ۔ادھر لاہو ر میں میٹرو بس سروس پر اربوں کھربوں لگا کر بھی دل نہیں بھرا اورنج میٹرو ٹرین کا منصوبہ پر بھی غور کیا جا رہا ہے پر پاکستان کے ایک اس شہر میں کوئی سنگل روڑ بھی سفر کے قابل نہیں ۔ہرشہر میں عید کے موقع پر بازاروں میں رش ہوتا تو سٹرکوں پر بھی پہلے سے زیادہ ٹریفک ہوتی ہے ٹریفک کنڑول کرنے کے لیے اقدامات بھی کیے جاتے ہیں پر جھنگ میں اس موقع پر ٹریفک کےسے کنٹرول کی جاتی ہے زرا یہ بھی سن لیں بازار کو جاتی واحد سنگل سٹرک پرچند پولیس اہلکار کھڑے کر دئیے جاتے جو رکشے والوں کو وہاں سے گزرنے نہیں دیتے اپنی نظروں کے سامنے پولیس کو رکشہ والوں کو تھپڑ مارتے دیکھا ہے جب تک رکشہ والا وہاں سے چلا نہیں جاتا اُس پر تھپڑوں کی بارش جاری رہتی ہے ۔یہ کیسا انصاف ہے سارا سال وہ لوگ بازروں کے اندر سے سواری لے جاتے ہیں اس کا کوئی نہیں کوئی نہیں پوچھتا لیکن اچانک جب انتظامیہ کو ہوش آتا تو وہ لوگوں کی عزت نفس مجروع کر دیتے ہیں ۔وزیراعلی صاحب لاہور سے باہر بھی دنیا آباد ہے ہم انسان ہیں لوگ تو پالتو جانوروں کا بھی خیال رکھتے ہیں عمارہ کی والدہ اگر بچ گی تو وہ بیٹی کو روئے گی یا شوہر کو، سات بچوں کی ما ں کا کیا حال ہو گا ۔وہ رکشے والہ کیسا ہوگا جو چاند رات کو بھی بچوں کے لیے روزی کمانے نکلا تھپڑ کھا کر گھر گیا ہو گا وہ کیسے اپنے بیوی بچوں سے نظر ملاتا ہو گا ۔وہ گھرجاتے تک کبھی رکشہ روکتا ہوگا روتا ہوگا پھر چلاتا ہو گا اس جنگل کے قانون کے بارے میں سوچھتا اپنے گال پر ہاتھ لگاتا ہو گا ۔انقلابی لوگوں پہلے اپنی حالت تو بدل لو بس سٹاپ کیا ہو گا رکشہ سٹینڈ بھی ہے پورے شہر میں کیا کوئی ون وے روڑ ہے مجھے تو ڈر ہے کسی روز یہ لوگ ان ون وے روڑ پر ٹریفک اشارے کا مطالبہ نہ کر دیں۔۔۔
روالپنڈی میں میٹروبس کے پل سے پتھر گرا جس ایک شخص مر گیا اس کی ہلاکت پر سارے میڈیا میں بھونچال آجانا وزیراعلی صاحب کا اُسی وقت نوٹس لینا مرحوم کے ورثا کے لیے امداد کا اعلان بھی کر دیا جاتا پر جھنگ میں سات بچوں پر پورا ٹرک گر جاتا لےکن مکمل خاموشی ہم اس ملک کے باسی نہیں ہماری لاشوں پر افسوس تو ایک طرف آپ ہماری لاشوں پر سیاست کرنے بھی نہیں آتے ۔میں یہ پوری زمہ داری سے کہے رہا ہوں کہ میٹرو بس کے منصوبے کو چھوڑ دیں اس کے افتتاح پر جتنا خرچہ آیا اگر صرف وہی جھنگ کی سڑکوں پر لگا دیا جاتا تو پورے جھنگ کے ون وے کارپٹ روڈ بن سکتے تھے ......
ہمارے ذہن پر چھائے نہیں ہیں حرص کےسائے

  جو    ہم محسوس کرتے    ہیں    وہی تحریر کرتے    ہیں 
                                                                                                                                                 (جالب)
Share on Whatsapp

About Jhang Tezz

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں