اصلاحِ خودی,تحریر نعیم اختر تونسوی


دنیا کے کسی بھی ملک میں رہنے والے باشندے اپنی اس ریاست کے قوانین کے پابند ہوتے ہیں اور اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب نہ ہوں. اسلئیے ہمیشہ وہ لوگ قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرتے ہیں. اگر ہم اپنے پیارے ملک پاکستان کی بات کریں تو یقیناً ہمیں ماننا پڑے گا کہ ہم ملکی قوانین کے پابند ہیں اور دائرہ ِقانون کے اندر رہتے ہوئے ہمیں ہر کام کرنا چاہئیے لیکن اس بات سے بھی ہم کنارہ کشی اختیار نہیں کر سکتے کہ ملک کی اکثریت قانون کے معانی سے بھی شناسا نہیں. اسلئیے حکومت کو چاہئیے کہ وقتاً فوقتاً عوام کو میڈیا کے ذریعے اور کم از کم سہ ماہی بنیادوں پر سکول، کالجز میں عوام کے حقوق و فرائض پر مبنی بنیادی قوانین کی ورکشاپس منعقد کروائے.

بطور مسلمان ہم صرف ملکی قانون کے پابند نہیں ہیں بلکہ ملکی قانون کے ساتھ ساتھ اللہ کے قانون کے بھی پابند ہیں، بلکہ اگر یوں کہا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا کہ ہم پر دو قانون لاگو ہوتے ہیں ایک اللہ کا قانون جو کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر مبنی ہے اور دوسرا ملکی قانون.
مولانا جلال الدین رومی ؒ کی کتاب مثنوی شریف میں ایک حکایت درج ہے، یہ سلطان محمود غزنویؒ کے زمانے کا واقعہ ہے کہ ایک رات حضرت سلطان محمود غزنویؒ شاہی لباس اتار کر عام لباس میں رعایا کی نگرانی کیلیے تنہا گشت فرما رہے تھے کہ اچانک چوروں کے ایک گروہ کو دیکھا کہ آپسمیں کچھ مشورہ کر رہے ہیں. چوروں نے آپکو دیکھ کر پوچھا کہ اے شخص تو کون ہے‌؟ ‌
سلطان نے کہا کہ میں بھی تم میں سے ہوں. وہ لوگ سمجھے کہ یہ کوئی چور ہے. اسلئے ساتھ لے لیا. پھر آپسمیں مشورہ کیا کہ ہر ایک اپنا ہنر بیان کرے تا کہ وہی کام اسکے سپرد ہو. ایک نے کہا کہ میں کتوں کی بولی سمجھ لیتا ہوں، دوسرے نے کہا میں جس شخص کو اندھیری رات میں دیکھ لوں اسے دن میں بلاشک و شبہ پہچان لیتا ہوں. تیسرے نے کہا کہ میں ہاتھ سے مضبوط دیوار میں بھی سوراخ کر لیتا ہوں. چوتھے نے کہا کہ میں مٹی سونگھ کر بتا دیتا ہوں کہ اس جگہ خزانہ دفن ہے یا نہیں. پانچویں شخص نے کہا کہ میرے پنجے میں ایسی قوت ہے کہ محل خواہ کتنا ہی اونچا کیوں نہ ہو،میں محل کے کنگروں میں رسی پھنسا کر کمند لگا لیتا ہوں. آخر پہ بادشاہ نے کہا کہ میری داڑھی میں ایسی خاصیت ہے کہ جب کسی مجرم کو پھانسی کی سزا ہو جائے اور میں ترحم کے ساتھ اپنی داڑھی ہلا دوں تو پھانسی کے مجرم کو بھی رہائی مل جاتی ہے.
سزا سے بچنے کا یہ ہنر سن کر سب خوش ہو گئے.
اس مشورہ کے بعد سب نے قصر شاہ محمود کی طرف رخ کیا، بادشاہ خود بھی انکے ہمراہ ہوگیا. راستے میں کتا بھونکا تو کتے کی آواز سمجھنے والے نے کہا کہ کتے نے کہا ہے کہ تمہارے ساتھ بادشاہ بھی ہے. لیکن چونکہ لالچ ہنر کو پوشیدہ کردیتا ہے، اسلئے کسی نے اس بات پر دھیان نہ دیا. ایک نے خاک سونگھی اور بتایا کہ شاہی خزانہ یہاں سے نزدیک دفن ہے، دوسرے نے کمند پھینکی اور شاہی محل میں داخل ہو گیا. نقب زن نے نقب لگائی اور پھر سب نے خزانہ آپسمیں تقسیم کرلیا. بادشاہ نے ہر ایک کا حلیہ پہچان لیا اور انکے گھروں کے راستے بھی دیکھ لیے. اور پھر خاموشی سے شاہی محل میں واپس آگیا. اگلے دن سب کو گرفتار کروا کے پھانسی کا حکم دے دیا. ایک شخص جسکی خاصیت یہ تھی کہ جسکو ا ندھیری رات میں دیکھ لیتا، دن میں بھی پہچان لیتا تھا،. عرض کی. "اے بادشاہ سلامت،. آپ نے وعدہ کیا تھا کہ میری داڑھی ہل جائے تو مجرم کو رہائی مل جاتی ہے، لہٰزا اے بادشاہ سـلامت. اپنی داڑھی ہلا دیجیے اور ہمیں اس عقوبت سے نجات دلا دیجیے". سلطان محمود اس گفتگو پر مسکرا دئیے اور سب کو معاف کر دیا.
اس حکایت میں نصیحت یہ ہے کہ جب انسان اللہ کے حقوق میں خیانت کرتا ہے یا بندوں کے حقوق کی خیانت کرتا ہے، حقیقی بادشاہ سب دیکھ رہا ہوتا ہے. اسلیے قانون اللہ اور اسکے رسول پاک کا ہو یا عام ملکی قانون، اسکی پاسداری ہم سب پر فرض ہے.

Share on Whatsapp

About Jhang Tezz

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں