وُہ دُبلا، پتلا، شوخ رخساروں والا بچّہ عقیقہ سے قبل بادبانوں اورسمندرکی لہروں سے آشنا ہُوا۔ ابھی وہ سنِ شعور کو نہ پہنچا تھا کہ اُس کی شفیق والدہ مٹھی بائی اُسے گودمیں لئے پانیلی کی زیارت سے برکتیں حاصل کرنے کے لیے گئی تھی۔ محمد علی جناح میں نہ تو قوت تھی نہ طاقت تھی ۔ اللہ کے فضل و احسان اورصبرکے سہارے مقدس مقامات کے سفرطے ہوئے۔ کسے معلوم تھا کہ استقامت کا سبق حاصل کرنے والا یہ بچّہ اپنی صفات سے عالمگیر شہرت حاصل کرے گا اور کروڑوں مجبور انسانوں کوآزادی کی کشتی پر سوار کرے گا۔
ہندوستان میں قریباً 462 ریاستیں تھیں۔ کاٹھیاواڑ کی ریاست گونڈل ایک ایسی ریاست تھی جس کا راجا ٹھاکر داس تھا۔ وہ انگریز سرکار کا بڑا وفادار تھا۔ ہندوستان کی سیاسی روش، اُتار چڑھاو کا ریاست میں کوئی اثر نہ تھا ۔ سیاسی سرگرمیاں مفقود تھیں۔ کاٹھیاواڑ کی ریاست گونڈل میں ایک چھوٹا سا گاؤں پانیلی نام کا تھا۔ ریاست میں راجاؤں کی اپنی حکومت چلتی ۔ تعلیمی ادارے ریاست میں ناپید تھے۔ کاروبار اور کھیتی باڑی بھی عام طرزکی ہوتی تھی۔ اسی گاؤں میں پونجا جناح نے کھیتی باڑی سے ہٹ کر کپڑا تیارکرنے کی چند کھڈیاں لگا رکھی تھیں۔ بندہ محنتی تھا، دن رات ٹھکا ٹھک رہتی۔ کچھ عرصہ بعد چند ملازم رکھ لیے۔ کپڑا تیارہونے لگا۔ گاہک بھی آنے لگے۔ کاروبارچل پڑا۔ گویا وہ پانیلی گاؤں کے سیٹھ کہلانے لگے۔ پونجا جناح کے تین بیٹے اور ایک بیٹی تھی جن کے نام سادگی اور رواج کے حساب سے رکھے گئے۔ بڑا بیٹا دلجی، پھرنتھو بھائی اور چھوٹے کا نام جناح (جینا) اور بیٹی کا نام منی بائی تھا۔ پونجا جناح کی شادی 1857ء کی جنگِ آزادی سے چھ سات برس قبل ہوئی۔ کراچی جناح کے لیے ایک نیا اور بڑا شہرتھا ۔ اتنا بڑا شہر اُنہوں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ مکان کی تلاش شروع ہوئی۔ نیونہام روڈ پر وزیر مینشن بلڈنگ کی دوسری منزل پر دو کمروں کا پورشن کرایہ پر حاصل کرلیا۔ اس عمارت میں کافی لوگ رہتے تھے۔ اُن کا تعلق کاٹھیاواڑ سے تھا۔ اُس زمانے میں بجلی نام کی چیزنہ تھی۔ نئی جگہ میں روزگار تلاش کرنا مشکل کام تھا ۔ تاہم جناح کے فطری حوصلہ اورہمت نے کام دکھایا۔ مشکلات سے نپٹتے ہوئے وہ اپنا کاروبار چلانے میں کامیاب ہوگئے۔کراچی سمندر کے کنارے ایک مشہور بندرگاہ تھی۔ انگریز تاجر اپنا مال اس بندرگاہ سے منگواتے تھے۔ ایک فرم گراہم شپنگ اینڈ ٹریڈنگ کمپنی تھی۔ اس کے منیجر مسٹر فریڈرک سنو کرافٹ تھے۔ اُن کے ساتھ جناح کی دوستی ہوگئی۔ اُس زمانے میں مسلمانوں کے لیے تعلیم کے میدان کم تھے۔ مدرسے، سکول اورادارے نہ تھے۔ مسلمانوں کا تعلیم کی طرف رجحان بھی کم تھا۔ جناح بھی صِرف گجراتی زُبان جانتے تھے۔ کاروبار میں انگریزی زُبان کی ضرورت ہوتی ہے۔ انگریز کی حکومت تھی۔ انگریزی زُبان تمام دفاتر، کالجوں اور سکولوں میں سمجھی جاتی تھی۔ اب کیا تھا؟ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ جناح کے دِل میں اپنے کاروبار کے لیے انگریزی زُبان سیکھنے کا شوق پیدا ہُوا۔ محنتی انسان تھے، آگے بڑھنے کی صلاحیت تھی اورانگریزی زُبان کے عوض گراہم شپنگ اینڈ ٹریڈنگ کمپنی سے تعلُّق ہوگیا۔ آپ (جناح) نے گوند کتیرہ جیسی چیزیں برآمد کرنا شروع کردیں۔ بینکاری بھی ساتھ شروع کردی۔ کئی ملکوں سے متعارف ہو گئے۔ جینا پونجا فرم کے ساتھ کراچی اور کھارادر کے علاقوں میں لوگ اعتماد کے ساتھ کاروبار کرنے لگے اور وہ کراچی کے چند اونچے کاروباری لوگوں میں شمار ہونے لگے۔ آپ نے کراچی میں کاروبارکے لیے انگریزی بول چال سیکھی اوراپنا منفرد مقام بنالیا۔ ایک خاص تہذیب و تمدن کا شخص قسمت آزمائی کرکے اپنا مقام بنا لے اورتجارت کے پیشہ میں فروغ حاصل کرکے پُرسکون زندگی گزارے، یہ جناح ہی کا کام تھا، ورنہ لوگ نئی جگہ اور علاقوں میں گھومتے رہتے ہیں۔ کراچی میں باعزت مقام کی رہائش نصیب ہوئی۔ لہٰذا آپ نے داخلی اورخارجی معاملات میں سرمایہ لگانا شروع کردیا۔ اُدھر اللہ سبحانہ‘وتعالیٰ کے فضل سے مٹھی بائی کے بطن سے اولاد کی اُمید بھی ہونے لگی۔ اللہ کا کرم ایسا ہُوا کہ اس محنتی جوڑے کو خُدا نے 25دسمبر 1876ء کو ایک پیارا سا بیٹا عطا کِیا۔ اُس زمانے میں پہلے بیٹے کی پیدائش پر بڑی خوشی منائی جاتی تھی۔ بچّہ پیدائش کے وقت کمزور تھا۔ وزن بھی کم تھا۔ہاتھ لمبے اِس لیے نظر آتے تھے کہ جسمانی لحاظ سے نحیف تھا۔ ننھے بچّہ کو ڈاکٹر اور حکیم صاحبان کو دکھایا گیا۔ ڈاکٹراورطبیب صاحبان نے والدین کو حوصلہ دیا، بچّہ تندرست ہے صِرف کمزور ہے۔ اسے ماں کا دودھ پلائیں۔ قائدِاعظم محمد علی جناحؒ کی تاریخِ پیدائش اور جائے پیدائش کچھ اور بتائی جاتی ہے۔ کیوںکہ سندھ مدرسۃ الاسلام کے رجسٹر میں تاریخ پیدائش 20 اکتوبر 1879ء درج ہے۔ قائدِاعظم کا یومِ پیدائش جو سرکاری طور پرمنایا گیا 25دسمبر 1876ء ہے، اس پر انہوں نے اعتراض نہیں کِیا۔ جائے پیدائش بھی اُنہوں نے کراچی ہی لکھی۔ قائدِاعظم ؒکا پاسپورٹ نمبر400878، 4 جولائی 1936ء کوجاری ہُوا۔ اس پاسپورٹ میں تاریخِ پیدائش 25دسمبر 1876ء اور جائے پیدائش کراچی ہی درج ہے۔ محمدعلی جناح کا نام والدہ نے رکھا۔ آپ کے بعد چھ بہن بھائی پیدا ہوئے رحمت، مریم، فاطمہ، شیریں، احمدعلی اوربندے علی۔ صِرف فاطمہ جناح نے نام کمایا ۔ باقی بہنیں بھائی گمنام رہے۔محمدعلی جناح کا عقیقہ مٹھی بائی کی خواہش کے مُطابِق ہُوا۔ حسن پیرکی درگاہ پانیلی سے تیس میل کے فاصلے پر تھی۔ وہاں بچّہ کو لے جایا گیا۔ ننھے محمد علی کو چمکدار قیمتی کپڑے پہنائے گئے تھے۔ محمد علی گود سے ہی فطری طور پر ہوشیار تھے۔ وہ بچپن ہی سے دُبلے پتلے تھے پھر کھیل کود ، دوڑنے بھاگنے میں لگے رہتے، خوراک کی طرف توجہ کم دیتے۔ مزاج میں نفاست تھی۔ وہ موٹا ہونا پسند نہیں کرتے تھے۔ ایک دِن کیا ہُوا؟ محمد علی جناح نے سوچا کہ بنٹے گولیاں کھیلنے سے مٹّی ہاتھوں کو لگتی ہے اور ہر بار جھکنا پڑتا ہے۔انہوں نے کرکٹ کا سن رکھا تھا، چناںچہ وہ کرکٹ کی گیند اورلکڑی لے آئے اور نیا کھیل اپنا لیا ۔ جوں جوں بڑے ہوتے گئے اُن میں نکھار پیدا ہوتا گیا ۔ والد صاحب کے ہاں گھوڑے تھے۔ کاروبارکے سلسلہ میں سفرگھوڑے پرکِیا جاتا تھا۔ چناںچہ گھوڑسواری کاشوق پیدا ہو گیا۔ والد صاحب نے بگھیاں بھی لے رکھی تھیں۔ محمدعلی جناح کوگھوڑے پر سوار ہو کر بڑی خوشی ہوتی۔ جب اُن کو پڑھائی کا شوق پیدا ہُوا وہ رات دیر تک لالٹین جلا کر پڑھتے رہتے۔ ایک رات والدہ مٹھی بائی نے دیکھا تو محمد علی جناح سے کہا کہ ’’تم دیر سے پڑھ رہے ہو، سو جاؤ‘‘ تو ذہین بچے نے کہا، ’’بڑاآدمی بننے کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے‘‘- محمدعلی جناح نے چہارم گجراتی سٹینڈرڈ پاس کرنے کے بعد سندھ مدرستہ الاسلام میں داخلہ لیا۔ یہاں ساڑھے چارسال تک پڑھا اور16برس کی عمر میں دسویں پاس کرنے کے بعد انگلستان روانہ ہوگئے۔ سندھ مدرستہ الاسلام مسلمانوں کا تعلیمی ادارہ کراچی کے مصروف علاقہ میں محترم حسن علی آفندی صدرمحمڈن نیشنل ایسوسی ایشن سندھ کی ہمت اورحوصلہ کی بدولت یکم ستمبر 1885ء کو معرضِ وجود میں آیا۔اُس وقت کے وائسرائے ہند نے مسلمانوں کے اِس عظیم ادارے کا سنگِ بنیاد رکھا۔ اس سے قبل بچوں کی تعلیم کا سلسلہ جاری ہوچکا تھا۔ اِس ادارے کو اعزاز حاصل ہے کہ دُنیاے عالم کے نقشے کے اوپر اُبھرنے والے مسلمان مُلک کی تخلیق کرنے والے طالب ِعلم محمد علی جناح نے یہاں سے تعلیم حاصل کی۔ سکول ہذا کے ریکارڈ کے مُطابِق محمد علی جناح سٹینڈرڈ فرسٹ کلاس میں پہلی بار 14 جولائی 1887ء کوداخل ہوئے۔ شیعہ خوجہ خاندان سے اُن کا تعلُّق تھا۔ کراچی ان کا آشیانہ تھا۔ ساتھ یہ بھی درج تھا کہ ہونہار طالبِ علم نے چوتھی کلاس گجراتی زُبان میں پاس کررکھی تھی۔ تاریخِ پیدائش کا خانہ خالی تھا۔ کچھ عرصہ کے بعد 23دسمبر1887ء کو وہ سکول ہذا چھوڑ کر بمبئی اپنی پھوپھی کے پاس چلے گئے۔ وہاں بمبئی میں انجمنِ اسلام کے سکول میں داخل ہوگئے۔ پھر دوبارہ داخل ہونے کراچی آ گئے۔ ٥ جنوری 1891ء کوجب محمد علی جناح درجہ چہارم میں تھے سکول چھوڑدیا۔ تیسری دفعہ ایک ماہ کے بعد 9فروری1891ء کو داخل ہوئے اورسٹینڈرڈ میں پہنچے۔ 30جنوری1892ء کو پھر سکول چھوڑا۔ نوٹ تحریر تھا شادی کروانے چلے گئے۔ سندھ مدرسۃ الاسلام ترقی کی طرف گامزن رہا۔ مکمل ہائی سکول ہوگیا۔ ساتھ پرائمری کلاسز گجراتی، اُردواورسندھی میں ہونے لگیں۔ قرآن کی کلاسز بھی، مسجد یعنی نمازوالے ہال میں جاری رہیں۔ اعلیٰ پایہ کے اساتذہ سکول کومیسر تھے مثلاً خواجہ علی محمد، مسٹرتیجانی، مسٹر پرشوتم، مولوی اللہ بخش۔ ایسی ٹیم مسٹر ولی محمد پرنسپل کے ساتھ تعاون سے نئی نسل کا کِردار سنوارنے میں مصروف تھی۔حسن علی آفندی کا خلوص تھا کہ اُنہوں نے مسلمان قوم کی تعلیم کے فروغ میں بڑی دلچسپی لے رکھی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کا تعاون جسٹس امیرعلی آف کلکتہ سے ہوگیا۔ جنہوں نے مسلمانوں کی تعلیمی حالت بدلنے کے لیے نیشنل محمڈن ایسوسی ایشن بنارکھی تھی۔ حسن علی آفندی کے پاس جذبہ تھا۔ لہٰذا دونوں اکٹھے ہوگئے اوربرِّصغیرمیں سندھ مدرستہ الاسلام جیسا ادارہ قائم ہوگیا۔
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں
(
Atom
)


0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں