جب میں سٹوڈنٹ تھا تو یہ تنظیموں سے بہت دور رہتا تھا. اسکی وجہ یہ تھی کہ مجھے لڑائی جھگڑا پسند نہیں تھا. میں نے کامرس کالج جھنگ میں D. Com پاس کیا پھر B. Com اور اس کے بعد کی تعلیم ایک پرائیویٹ ادارے سے حاصل کی پر آج تک کس سے جھگڑا نہیں کیا. وجہ یہ خوف نہیں تھا کے مجھے مار پڑے گی وجہ کچھ اور تھی.
کافی دن سے سوچ رہا تھا کہ اس موضوع پر بات کی جائے کہ سٹوڈنٹ پاور کیا ہوتی ہے اور ہم نے اسے کیا سمجھا ہوا ہے.
جب قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان بنا لیا تو فرمایا کہ نوجوان نسل قوم کا سرمایہ ہیں. اور نوجوان طبقہ عموماً سٹوڈنٹس کا ہی ہوتا ہے. یہ بات بہت دکھ بھری ہے کہ ہمارا نوجوان ہی اپنی طاقت سے محروم رہا ہے آج تک. اور ان میں میں خود بھی شامل ہوں. کیا یہ کسی دکھ سے کم نہیں کہ ہمارا آج کا طالب علم 10 روپے کرایہ کی خاطر بس کنڈکٹر کی پٹائی لگاتا ہے. بس کے شیشے توڑ دیتا ہے، اک ذرا سی بات پر پورے کالج کو اکٹھا کر کے کسی ایک لڑکے کی پٹائی لگاتا ہے. یا پھر انتہائی افسوس کے ساتھ کہ لڑکیوں کے رکشہ کے پیچھے اپنی بائک لگاتا ہے. اور بھی بہت سے پوائنٹس ہیں جنہیں میں اگر ہائی لائٹ کرنا چاہتا تو کر سکتا تھا پر کیا کوئی سٹوڈنٹ مجھے بتائے گا کہ کیا یہی اصل سٹوڈنٹ پاور ہے؟
بالکل نہیں جناب...
آئیے میں آپ کو کچھ سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں. در حقیقت یہ بات 100 فیصد درست ہے کہ قوم کا نوجوان ہی قوم کا اصل سرمایہ ہوتا ہے. پھر چاہے وہ لڑکا ہو یا لڑکی. پر افسوس تو اس امر کا ہے کہ ہم سمجھ ہی نہ پائے اپنی طاقت. ہمارہ شہر جھنگ ایک پسماندہ شہر گنا جاتا ہے. لوگ مزاق کر کے کہتے ہیں کہ گاؤں کا گاؤں اور شہر کا شہر. پر ایسا ہے کیوں؟ ہمارا شہر اس لیے آگے نہ بڑھ سکا کیونکہ سوچ نہ بن سکی ایسی. سوچ کیوں نہ بنی کیوں کہ تعلیم کی ریشو کم رہی اور ہماری سوچ مفلوج ہو کر رہ گئی. اور سب سے بڑا مسئلہ کہ تعلیم کم کیوں ہوئی. جناب تعلیم اس لیے کم ہوئی کیونکہ جھنگ میں تعلیمی ادارے بس گنتی کے ہیں. نہ کوئی یونیورسٹی، نہ کوئی میڈیکل کالج اور نا کوئی لاء کالج.
اب واپس آتے ہیں سٹوڈنٹ پاور پر. دوستو اللہ تعالیٰ بھی کسی قوم کا ساتھ تب تک نہیں دیتا جب تک وہ خود کوشش نہ کریں. اپنے ایمان سے بتائیں کہ ہم میں سے کس کس نے یونیورسٹی کے قیام کے لیے اعلیٰ حکام سے ڈیمانڈ کی؟ کب ہم نے سابق وفاقی وزیر برائے تعلیم جناب شیخ وقاص اکرم صاحب کے پاس گئے؟ کب ہم نے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو لیٹر لکھے؟ یا میڈیا پر آواز بلند کی؟ در حقیقت ہم نے کبھی اس بارے میں سوچا ہی نہیں. اور یہ جو اب یونیورسٹی آف جھنگ کی ہوا چلی ہے اچھا عمل ہے چاہے کوئی سیاسی لیڈر ہی بنوا رہا ہے پر افسوس ہمارے سٹوڈنٹس پھر بھی سوئے ہی رہے؟ آخر کہاں ہے سٹوڈنٹس کی کنٹریبیوشن؟ کیا آپ کو یہ تکلیف گوارا ہے کہ آپ اپنے شہر سے باہر لاکھوں روپے خرچ کر کے تعلیم حاصل کریں؟ یا ہماری بہنیں، بیٹیاں گھروں سے دور رہیں تعلیم کے حصول کے لیے؟
اصلی پاور بس کے شیشے یا کسی کی ہڈی توڑنا نہیں بلکہ اپنے حقوق کو پہچاننا اور ان کے حصول کی جدوجہد کرنا ہے. اگر کوئی میری تحریر پڑھے تو خود سے عہد لازمی کرے کہ اپنے لیے نہ سہی اپنے بچوں کے لیے اپنی پاور کا استعمال کرنا ہے. یونیورسٹی آف جھنگ کی کلاسز سٹارٹ ہیں انشاءاللہ بہت جلد بلڈنگ بھی بن جائے گی اگر کوئی سیاسی مسئلہ نہ بنا تو پر آپ نے کوشش کو جاری رکھنا ہے. اپنی آواز بلند کرتے رہنا ہے تاکہ یہ حکمران سو نہ جائیں.
اللہ پاکستان اور پاکستانیوں کی خیر کرے.
اللہ حافظ.



0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں