یا د ش بخیر ا پنے نا ا ہل قر ا ر د ئیے جا نے سے قبل سا بق وز یرِا عظم میا ں نو ا ز آ ئے د ن بجلی گھر و ں کا ا فتتا ح کر تے پا ئے جاتے۔ان بجلی گھر و ں کو وہ بجلی کے کا ر خا نے کہا کر تے ۔ہر ا فتتا حی تقر یر میں میا ں صا حب کا دعویٰ ہو ا کرتا کہ 2017کے ا وا خر تک ہما ر ی کا وشو ں سے نہ صر ف ملک میں بجلی کی لو ڈ شیڈ نگ کا خا تمہ ہو جا ئے گا، بلکہ ہما ر ے پا س بجلی ضر و ر ت سے ز یا دہ مقد ا ر میں ہو جا ئے گی۔ لیکن عو ا م شا ہد ہیں کہ اب جبکہ 2018کی گر میو ں کا آ غا ز ہو چکا ہے،ایک دن بھی ا یسا میسر نہیں آ جب بجلی کی لو ڈ شیڈ نگ نہ ہو ئی ہو۔ ا و ر جیسا کہ میں نے گر میو ں کے آ غا ز کا کہا تو حقیقت تو کچھ یو ں ہے کہ گر میا ں اور لو ڈ شیڈ نگ متو ا ز ی خطو ط پر سا تھ ساتھ بڑ ھ ر ہی ہیں۔ حق کی کہو ں تو سب سے ز یا دہ بری حا لت صو بہ سند ھ کی ہے، جہا ں کر ا چی میں لو ڈ شیڈ نگ کا دو ر ا نیہ دس گھنٹے تک پہنچ چکا ہے۔ یہا ں نک کہ بعض علا قو ں میں تو سو لہ سو لہ گھنٹے کی لو ڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے۔ ذکر کر نے کی ضر و ر ت ہے کہ اس شہر میں سمند ر کے سا حل پہ و ا قع ہو نے کی بنا ء پر ما ر چ ، ا پر یل پھر اس کے بعد ستمبر ، ا کتو بر میں شد ید گر می پڑ تی ہے۔ مخصو ص حا لا ت کی بنا ء پر اس شہر کے مکینو ں کے ا حسا سِ محر و می میں مسلسل اضا فہ ہو ر ہا جو و طنِ عز یز کے لیئے کسی نیک شگو ن کا با عث نہیں۔ یہا ں یہ بتا نا بھی ضر وری ہے کہ کر ا چی میں اتنے لمبے دو ر ا نیہ کی لو ڈ شیڈ نگ کی وجہ قد ر تی گیس کی فر ا ہمی میں اچا نک کمی ہے۔ چنا نچہ حا لا ت کی سنگینی کو محسو س کر تے ہو ئے سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے وزیر اعظم کو خط لکھا ہے۔ خط میں ا نہو ں نے در خو ا ست کی ہے کہ وہ بجلی کی پیدوار کے لیے قدرتی گیس کی فراہمی میں اچانک کمی کے مسئلے کو دیکھیں، کیونکہ شدید گرمی میں دس گھنٹے تک کی لوڈ شیڈنگ سے لوگوں کا جینا دوبھر ہوچکا ہے۔ ان میں اشتعال بڑھ رہا ہے اور بدامنی کا خدشہ ہے۔ خط کے مند ر جا ت کے مطابق کے الیکٹرک کو صرف 90 ملین کیوبک فیٹ یو میہ گیس مل رہی ہے۔ وجہ چا ہے کچھ بھی ہو، وز یرِ اعلیٰ کا یہ با ور کر ا نا کہ طو یل لو ڈ شیڈنگ کی بنیا د پر عو ا م میں اشتعا ل بڑھ رہا ہے او ر بد امنی کا خطر ہ ہے، بہت کچھ کہہ رہا ہے۔ چلئیے وز یر ا علیٰ سند ھ نے تو و زیر ا عظم کو اپنے محسو سا ت سے کم از کم آ گا ہ تو کر دیا ہے، مگر پنجا ب کے اربا بِ اختیا ر نہ جا نے کب او ر کس صو رت اپنے عو ا م کی مشکلا ت کو محسو س کر یں گے۔ پنجا ب کے قصبو ں اور د یہا تی علا قو ں میں بھی بجلی کی لو ڈ شیڈ نگ دس سے سو لہ گھنٹے تک جا پہنچی ہے۔ بلو چستا ن اور خیبر پختو نخوا ہ سے بھی اسی قسم کی خبر یں مو صو ل ہو رہی ہیں۔ یعنی ملک بھر کے عوام یہ سوچ کر پریشان ہیں کہ جب گرمیاں عروج پر ہوں گی تو ان کے ساتھ کیا بیتے گی۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق ملک کے مختلف علاقوں میں 16 گھنٹے تک لوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے، حالانکہ حکومت اور خصوصی طور پر سابق وزیر اعظم نواز شریف برسرِ اقتدار آنے کے بعد مسلسل یہ دعویٰ کرتے رہے کہ جلد ہی لوڈ شیڈنگ کا مکمل خاتمہ کردیا جائے گا اور گزشتہ برس کے اواخر میں حکمران جماعت نے ملک کے زیادہ تر علاقوں میں ’’زیرو لوڈ شیڈنگ‘‘ کا اعلان بھی کردیا تھا۔ یعنی حکومت کے دعوے کے مطابق کہیں لوڈ شیڈنگ نہیں ہورہی تھی۔ لیکن درحقیقت اب بھی 39 فیصد فیڈ ایسے ہیں جہاں کم سے کم دو اور زیادہ سے زیادہ 16 گھنٹے تک لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے۔ حکومتی دعووں کے مطابق عوام کو بجلی مل رہی ہے، لیکن میڈیا رپورٹیں، عوام کے احتجاج اور وزیر اعلیٰ سندھ کا وزیر اعظم کے نام خط ایک الگ ہی کہانی بیان کر رہے ہیں۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کا 40 فیصد علاقہ لوڈ شیڈنگ سے متاثر ہورہا ہے۔ اس کا سیدھا اور صاف مطلب یہ ہے کہ بجلی طلب کے مطابق پیدا نہیں کی جارہی اور لوڈ شیڈنگ مکمل طور پر ختم کرنے کے حکومتی دعوے غلط ثابت ہورہے ہیں۔ اس وقت بجلی کی کل پیدوار کا 64.4 فیصد فوسل فیول (آئل اور گیس) سے حاصل کیا جارہا ہے (35.2 فیصد فرنس آئل اور 29 فیصد گیس سے)، پانی سے 29 فیصد بجلی حاصل ہورہی ہے اور 5.8 فیصد ایٹمی توانائی سے۔ اس کے باوجود ڈیمانڈ پوری نہیں ہورہی اور عوام کو موسم گرما کے آغاز ہی میں کئی کئی گھنٹے لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بہرحال وجہ جو بھی ہو حکومت اگر لوڈ شیڈنگ مکمل طور پر ختم نہیں کرسکتی تو اسے اس کا دورانیہ کم سے کم سطح پر رکھنے کے لیے ہی اقدامات کر نے کا بیڑ ہ ا ٹھا لے۔
اور اس کے سا تھ ایسے د عو ے کر نے سے گر یز کرے جو ایک آ ن میں اس کے د عد و ں کی قلعی کھو ل کر رکھ دے۔ بجلی کی پیداوار سے منسلک ایک معاملہ ملک میں ایک بڑے ڈیم کی جلد از جلد تعمیر کی ضرورت ہے۔ شنید ہے کہ بھارت نے دریائے چناب کا پانی روک کر اپنے بگلیہار ڈیم اور سلال ڈیم بھرنا شروع کردیئے ہیں۔ اگر ملک میں ایک بڑے آبی ذخیرے کی تعمیر کا اہتمام کرلیا جائے تو نہ صرف بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہوسکتا ہے بلکہ آب پاشی کے لیے وافر پانی بھی دستیاب ہوگا۔ اور اس طرح ہماری صنعت و زراعت، دونوں تباہی سے بچ سکتے ہیں۔ جب بھی کسی بڑے آبی ذخیرے کی ضرورت کا ذکر آتا ہے ذہن میں پہلا نام کالا باغ ڈیم کا ابھرتا ہے۔ اس ڈیم کی تعمیر کا آغاز گزشتہ صدی کے ربع آخر میں کیا گیا تھا لیکن ابھی اس کی تعمیر کا کام پوری طرح شروع بھی نہیں ہوا تھا کہ مختلف اطراف سے اس کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہوگئیں۔ یہ مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوسکا ہے۔ پاکستان کے پاس اس وقت جتنے ڈیم موجود ہیں، ان میں 60 سے 90 دن کے لیے پانی جمع کیا جاسکتا ہے، جبکہ پانی کے ماہرین کہتے ہیں کہ اگر کسی ملک کے پاس 120 دن سے کم پانی جمع کرنے کی صلاحیت ہے تو اس کی زراعت خطرے میں ہے۔ پاکستان کے دریاؤں سے سال بھر میں کل 14 کروڑ ایکڑ فٹ پانی بہتا ہے اور اس میں 2 کروڑ 70 لاکھ ایکڑ فٹ پانی سمندر میں بہہ کر ضائع ہوجاتا ہے۔ کالا باغ ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 8 ملین ایکڑ فٹ ہے۔ اس ڈیم سے 3600 میگا واٹ سستی بجلی بھی حاصل ہوگی۔ ایک خبر کے مطابق اب یہ معاملہ عدالتِ عظمیٰ کے زیر غور آیا ہے تو توقع ہے کہ اس حوالے سے اچھی پیش رفت سامنے آئے گی۔ بہرحال فوری ضرورت وزیر اعلیٰ سندھ کی جانب سے لکھے خط پر توجہ دینے اور سندھ کی گیس کی ضروریات پوری کرنے کی ہے ۔ تاکہ کراچی کے عوام کو طلب کے مطابق بجلی مل سکے۔ تا ہم اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ملک کے با قی حصو ں کو یکسر فرا مو ش کر دیا جا ئے۔لہذا اگر مکمل طو ر پر لو ڈ شیڈ نگ کا خا تمہ مشکل ہے تو کم از کم اس کے دو را نئیے کو ز یا دہ سے زیا دہ کم کرنے کے لیئے سنجید ہ اقدا ما ت کیئے جا ئیں۔


0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں