قومی اداروں کی خستہ حالی !!! تحریر:فہد ریاض

قومی اداروں کی خستہ حالی !!! 
تحریر:فہد ریاض
ہمارے ہاں ایک مثل مشہور ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس جناب کہنے کو تو یہ مثل ہے مگر یہ آج کے دور کی مکمل عکاسی کرتی نظر آتی ہے۔ صاحبان اقتدار اپنی لاٹھی کا آزادانہ استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ اور بلاشبہ یہی وجہ ہے کہ آج مملکت خداد پاکستان شدید مسائل کا شکار ہے۔ادارے تباہی اور بدحالی کا شکار ہیں جبکہ اعلی افسران دن دگنی رات چگنی ترقی کر رہے ہیں۔ادارے انتظامی پستی کا شکار اور بیوروکریٹس کا اسٹیٹس بلند سے بلند ترین ہوتا جا رہا ہے۔ایک ہی محکمہ کے چار چار سیکرٹریز اور ان بیورو کریٹس کو دی جانے والی کئی کئی لاکھ تنخواہیں اور کروڑوں کی مراعات ملکی خزانے پر بوجھ بن چکی ہیں۔ بیوروکریٹس کا رعونت سے بھرا لہجہ اور رویہ اپنے زیر سایہ چھوٹے اور کمزور ملازمین کیلئے درد سر بنا ہوا ہے اس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ سب افسران بالا ایسا منفی طرز عمل نہیں رکھتے مگر بہت سی کالی بھیڑوں نے سارے سسٹم کو ہائی جیک کر رکھا ہے اور جو جتنا بڑا کرپٹ ہے وہ اتنا معزز اور حاکموں کا چہیتا ہے۔
افسران بالا کو دی جانے والی پرکشش مراعات اور خطیر تنخواہوں کے باوجود ان سرکاری اداروں کی پرائیویارئزیشن کی سکیمیں اور نوٹیفکیشن آئے روز جاری کر دیے جاتے ہیں جو حکام کی عیاشیوں اور شاہ خرچیوں اور انتظامی ڈھانچے کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے باوجود سب اچھا کا راگ الاپتے وزیر و مشیر اور حکومتی افراد پاکستانی اداروں کی ترقی، خوشحالی اور گڈ گورننس کے دعوے کرتے نظر آتے ہیں اور ان میں سب سے بڑے دعوے دار وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف اور انکی کابینہ کے افراد ہیں جو کبھی تو ترکی کے نظام سے متاثر ہو کر تو کبھی چین کے نظام سے متاثر ہو کر چند دن بڑے جوش سے اداروں کی بہتری اور انتظامی ڈھانچہ کو سنوارنے کیلئے بھاگ دوڑ کرتے ہیں۔ مگر خادم اعلی کا یہ جوش وقتی جذباتیت سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ اور پھر میاں صاحب کا ہر منصوبہ کرپشن اور بد نظمی کا شکار ہو جاتا ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ ملکی تمام ادارے ناکام اور خسارے میں جا رہے ہیں اور ہمارے حاکموں کے اپنے ذاتی کاروبار منافع بخش ہیں۔ گڈ گورننس کے دعوے دار حکمران کبھی محکمہ تعلیم تو کبھی محکمہ صحت کی نجکاری کا اعلان کرکے لاکھوں بر سر روزگار افراد کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگارہے ہیں۔ ایسے میں کبھی ملک کا مستقبل بنانے والے اساتذہ تو کبھی ?? کروڑ عوام کے مسیحا ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف کو اور دن رات عوام کی خدمت پر مامور نرسز تو کبھی پی آئی اے کے ملازمین محفوظ مستقبل کیلئے سڑکوں پر احتجاج ریکارڈ کرواتے نظر آتے ہیں۔ ملک عزیز میں ان سرکاری اداروں کے ملازمین اور انکے اہل خانہ شدید ذہنی و جسمانی اضطراب کا شکار ہیں۔اگر اداروں کی نجکاری ہی کرنی ہے تو پنجاب حکومت نے ایک محکمہ کے چار چار سیکرٹریز کیوں بنائے ہیں اگر یہ اتنے افسران مل کر بھی ایک محکمہ کو منافع بخش بناتے ہوئے احسن طریقے سے چلا نہیں سکتے تو عوام اور ملکی خزانہ پر ان افسران بالا کا بوجھ کیوں ڈالا جا رہا ہے۔
آقائے دو جہاں حضرت محمدﷺ کے جانشین خلیفہ اول اور ریاست مدینہ کے حکمران حضرت ابو بکر صدیقؓ نے جب منصب خلافت سنبھالا تو اپنی کپڑے کی تجارت بند کر دی اور فرمایا کہ اسلام حاکم وقت کو ذاتی کاروبار کی اجازت نہیں دیتا۔ اور اس بات کی آج سمجھ آتی ہے جب قومی ادارہ پی آئی اے خسارے کا شکار جبکہ موجودہ وزیر اعظم خاقان عباسی کی اپنی بلیو ائیرلائن منافع بخش جا رہی ہے۔جب پاکستان کی اور کسی دور میں ایشیا کی بڑی سٹیل مل کراچی سٹیل مل بد حالی اور خسارے کا شکار جبکہ حکمرانوں کی اپنی سٹیل ملز منافع بخش جا رہی ہیں۔ پاکستان ریلویتو عرصہ دراز سے شدید بدحالی اور مالی خسارے کا شکار ہے۔ اگر وجوہات تلاش کریں تو آپ کو پتا چلے گا کے جب حکمرانوں کی اپنی فیکٹریاں، شوگر ملز،سیمنٹ فیکٹریاں، سریے کی فیکٹریاں، سٹیل ملز، مرغی خانے حتی کہ انڈوں تک کے ذاتی کاروبار ذاتی ایئرلائنز ہوں گی اپنی لوکل ٹرانسپورٹ کمپنیز ہوں گی تو وہ اپنے اداروں اور کاروبار کو ترجیح دیں گے نا کہ ملکی اداروں کی خیر خواہی چاہیں گے آپ ذرا حکمرانوں کے ذاتی کاروبار پر پابندی عائد کر کے دیکھیں پھر دیکھیے گا یہی خسارے میں جانے والے تباہ حال ملکی ادارے کیسے ترقی کرتے ہیں اور کتنی تیزی سے ملک عزیز کے بڑے منافع بخش ادارے بنتے ہیں۔
قومی ادارے ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اگر ادارے تباہ ہوں گے تو معیشت تباہ ہو گی اور اداروں کی پرائیویٹائیزیشن کا مطلب معیشت کو گروی رکھ دینا ہے ایسے حالات میں غربت اور بے روزگاری کی شرح بڑھے گی اور بھوک و افلاس کے ڈیرے ہوں گے۔ میاں صاحب اداروں کو بیچنا چھوڑدیں روکنا ہے تو اداروں میں کرپشن روکیے۔ سستی روٹی، لیپ ٹاپ، یلو کیب جیسی بے کار اسکیمز میں ہونے والی کرپشن کو روکیے یا پھر موجودہ ملتان اور لاہور میٹرو بس منصوبہ میں پائے جانے والے حالیہ کرپشن سکینڈلز کو روکیے۔اور پاکستان میں میگا پراجیکٹ سی پیک کی شفافیت کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات اٹھاکر ملکی دولت کو لٹنے سے روکیے۔اورنج ٹرین لائن منصوبہ میں اربوں روپوں کی خرد برد یوتھ لون سکیم میں ہونے والی بے ضابطگیوں کو روکیے۔ نقل ہی کرنی ہے تو پہلے چین اور دیگر یورپی ممالک کی طرح کرپشن گردی کے خلاف قوانین بنائیں پھر دیکھیے گا اس ملک کی تقدیر کیسے بدلتی ہے اور ملک ترقی کے زینے کتنی تیزی سے طے کرتا ہے۔ ذرا سوچیے پاکستان معرض وجود آنے کے بعد بننے والا چین آج کیسے دنیا کی دوسری بڑی پاور اورمضبوط معیشت کا مالک بن گیاہے۔ وہاں کرپشن گردی کی سزا سزائے موت ہے تو ان کا ہر منصوبہ منافع بخش بنتا ہے۔
پاکستان ادارے ترقی کیسے کریں جہاں کے3 بارکے منتخب وزیر اعظم صاحب کرپشن پر نا اہل ہوکر اب سڑکوں پر دن رات اداروں کے خلاف دہائی دیتا پھرتا ہیں کہ مجھے کیوں نکالا؟ اور جنہوں نے شاید محض اپنی ذات کو ہی حکومت سمجھ رکھا ہے اسی لیے اپنی ہی جماعت کے اپنی ہی مرضی سے منتخب کردہ وزیر اعظم اور اپنی ہی مکمل کابینہ اور حکومت کے ہوتے ہوئیبھی شور ہے کہ میرے جانے سے ترقی کا سفر رک گیا ہے۔ میرے منصوبے پورے نہیں ہونے دیے گئے میں ہوتا تو ملک اور ترقی کرتا نئے ترقیاتی منصوبے مکمل کرتا۔ میرے جانے سے اور نا اہل کیے جانے سے معیشت خراب ہو گئی میری حکومت کے خلاف سازش کی گئی۔ بھائی کوئی اسے سمجھائے میاں صاحب ابھی بھی آپ کی ہی حکومت ہے تو دوڑائیں نہ ملک کو ترقی کے راستے پر؟ جناب کا جانشین آپ سے بات بات پر مشورہ نہیں بلکہ حکم لینے ملک سے باہر لندن تک قوم کے پیسوں سے آپکی چوکھٹ پر حاضری اور سلامی دینے پہنچ جاتا ہے اور آپ اپنے ہی انتخاب کا مذاق اڑاتے پھرتے ہیں۔ بتائیں انکے اور انکی حکومت کے خلاف سازش کس نے کی ہے لگتا تو ایسے ہے کے میاں صاحب خود ہی اپنی حکومت کے خلاف سازش میں مصروف ہیں۔ عوام کو اپنے ہی ملک کے اداروں کے خلاف اکسانا اور ملکی اداروں سے ٹکراؤ کی پالیسی اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کیلئے جھوٹ پر جھوٹ سابق وزیر اعظم کی خود ہی کے خلاف سازش ہے۔
پارلیمنٹ میں مسند اقتدار پر بیٹھنے والوں نے ثابت کر دیا ہے کہ پارلیمنٹ میں غریب عوام کی بہتری اور روشن مستقبل کی فراہمی کیلئے قانون سازی کی بجائیملک کے اس سپریم ادارے کو بھی فقط اپنے ذاتی مفادات کے حصول کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ میاں نواز شریف کی نا اہلی کے بعد پارٹی صدارت ہاتھ سے جاتے دیکھ کر اس پارلیمنٹ کو فرد واحد کی خوشنودی کیلئیاستعمال کرتے ہوئے آئین میں ترمیم کیے جانے کا سانحہ سر انجام دے کر قوم پر واضح کر دیا کہ یہاں آئین کی حکمرانی نہیں بلکہ چند افراد کی حکمرانی رائج ہے۔ اور یہاں واقعتا دہرا معیار ہے جب بڑی گردنوں والے پھنستے ہیں تو وہ اس ملک کے آئین کو مسلتے ہوئے گزر جاتے ہیں اور اپنے لیے بالآخر ضرورت پیش آنے پر آئینی ترامیم کا سہارا لیتے ہیں کاش یہ سہولیات ملک کی اس اشرافیہ کو ہی نہیں بلکہ اسی ملک کے غریب مجبور اور بیبس افراد کو بھی حاصل ہوتیں۔ 
قوم چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کرتی ہے کہ عدلیہ کے وقار سے کھیلنے والوں کو نہال ہاشمی کی طرح سزائیں دے کر انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں تا کہ آئندہ اداروں کا تقدس پامال ہونے سے بچ جائے۔ اور ملک سے باہر بیماری کے بہانہ بنا کر بھاگ جانے والیسابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب کو وطن واپس لا کر منی لانڈرنگ اور کرپشن کے ذریعے سے اکھٹی کی جانے والی دولت اور اثاثہ جات کا حساب کتاب کیا جانا چاہیے۔ حدیبیہ پیپر ملز کیس کو ری اوپن کرتے ہوئے انصاف فراہم کیا جائے۔
چیرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان سے خیبر پختونخواہ کا سرکاری ہیلی کاپٹر استعمال کرنے کی تحقیقات ہونی چاہيیں لیکن اس کے ساتھ نا اہل نواز شریف سے نا اہلی کے بعد سرکاری وسائل کے بے دریغ استعمال اور شاہ خرچیوں اور پوری پوری فیملی کے ساتھ بیرونی دوروں کی جانچ پڑتال بھی بھی ضرور کی جائے۔ ن لیگ کو وہ وقت بھی یاد کرنا چاہیے جب میاں صاحب وزیر اعظم تھے اور انکا کھانا پروٹوکول کے ساتھ سرکاری ہیلی کاپٹر میں مری لیجائے جانے کا معاملہ سامنے آیا تھا۔اور بالخصوص انکی صاحبزادی محترمہ مریم صفدر سے انکے عالیشان پروٹوکول اور کسی سرکاری ملکی منصب پر فائز نہ ہونے کے باوجود ملکی وسائل پر اور سرکاری خزانے پر بوجھ بننے پر صاف اور شفاف تحقیقات ہونی چاہیے۔
ملک میں جاری نقیب محسود شہید کے قاتلوں کی گرفتاری کیلئے راؤ انوار جیسے ظالموں کے گرد گھیرا تنگ کرتے ہوئے بے گناہ افراد کے قتل کے جرم میں دفعہ ??? کے تحت سزا دی جائے تاکہ آئندہ کسی گھر کا چراغ گل نہ ہونے پائے۔ حیرت کی بات ہے پولیس ڈیپارٹمنٹ کا ایس پی رینک کا آفیسر اپنے ہی محکمہ کے سب سے اعلی صوبائی آفیسر آئی جی سندھ کے احکامات کے باوجود اس کے بنائے ہوئے کمیشن اور اور تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہونے کو تیار نہیں جو کہ اداروں کی کارکردگی اور افسران بالا کی کارکردگی اور سنجیدگی پر بڑا سوالیہ نشان ہے اور اتنے دن گزر جانے کے باوجود سرکاری انٹیلیجنس ادارے، پولیس، اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے گورنمنٹ سندھ اور وفاقی گورنمنٹ اور وزیر داخلہ تک ایک ایس پی کی گرفتاری کیےئن کوئی ٹھوس اقدامات اٹھانے سے قاصر نظر آ رہے ہیں اور ابھی تک اس کو گرفتار کرنے کیےئگ کوئی منظم اقدامات نہیں اٹھائے گئے ایسا صاف محسوس ہوتا ہے کہ کچھ نامعلوم قوتیں اور عناصر راؤ انوار اور اسکی ٹیم کو بچانے کی کوشش میں ہیں شاید اس کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کے کہیں راؤ کی گرفتاری سے کئی لوگوں کے مکروہ چہروں سے پردہ چاک نہ ہو جائے۔ ورنہ راؤ انوار کی گرفتاری ہمارے اداروں کیےء کوئی بہت مشکل کام نہ ہے۔
چند دن قبل پنجاب کے راؤ انوار سابق انسپکٹر عابد باکسر کی دبئی ائیر پورٹ پر گرفتاری سامنے آئی ہے جو گزشتہ دس سالوں سے فرار ہو کر بیرون ملک مقیم تھا اور کچھ عرصہ قبل الیکٹرانک میڈیا کے لائیو پروگرام میں بات کرتے ہوئے موصوف نے بڑے انکشافات اور اپنے جرائم کے برملا اعتراف کیے تھے۔ صاحب نویکی دہائی میں پنجاب میں خوف اور دہشت کی علامت سمجھے جاتے تھے اور 2007 تک موصوف پر درجنوں قتل، قبضے، فراڈ، جعل سازی کے مقدمات درج تھے اور مختلف سکینڈلز میں اس کا نام آتا رہا بیرون ملک فرار اور نوکری سے معطلی کے بعد اس پر پنجاب گورنمنٹ کی طرف سے انعام کا بھی اعلان کیا گیا تھا۔ مگر دس سال تک پاکستانی گورنمنٹ اسے گرفتار کرنے میں ناکام رہی۔ اب جب کے اس کی گرفتاری عمل میں آ چکی ہے تو گورنمنٹ کو اور سپریم کورٹ آف پاکستان کو چاہیے اس کے انکشافات اور جرائم کی تحقیقات بڑے اور وسیع پیمانے پر کروا کر اصل حقائق عوام کے سامنے لاتے ہوئے عابد باکسر کو قانون کے مطابق سخت سے سخت سزا دی جانی چاہیے تاکہ پنجاب کے کئی مظلوم نقیبوں کے ورثا اور خاندانوں کو انصاف مل سکے۔نہ جانے کس کس ماں کی گود اجڑی ہو گی ان درندوں کے ہاتھوں۔ 
ریاست کی ذمہ داریوں میں ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کی جان مال عزت و آبرو کی محافظ ہوتی ہے تو خدارا اپنے ملک کے شہریوں اور ماؤں کے زندہ رہ جانے والے بچوں نقیب،مقصود، سرفراز شاہ کی زندگیوں کی اور قوم کی بیٹیوں زینب، اسما، کی عزت و آبرو اور تمام شہریوں کے مال کی حفاظت جیسی ذمہ داریوں کو نبھایے۔ قانون کی بالادستی قائم کیجیے۔ عدل و انصاف کی فضا قائم کریں۔عوام کو تیز ترین اور سستا ترین انصاف انکی دہلیز پر دیجیے۔ انکے حقوق اور بنیادی انسانی حقوق کو پورا کریں۔ وطن عزیز کے حصول کیےء لاکھوں افراد کی قربانیوں سے لیکر آج کے دن تک اس پیارے ملک پاکستان کی بقا اور سلامتی کیےئی شہید ہونے والے آخری فرد تک کی قربانیوں کی لاج رکھیے۔مہنگائی، غربت،کرپشن،دہشت گردی، لاقانونیت، انتہا پسندی، رشوت ستانی،اور بد امنی جیسے موذی مسائل سے مستقل چھٹکاڑا حاصل کریں اور ٹھوس حکمت عملی اپنائیں۔حلقوں میں اور صوبوں میں ترقیاتی فنڈز کی غیر منصفانہ تقسیم کو روکیں۔ تمام صوبائی حکومتوں کو سرکاری خزانے سے برابری کی بنیاد پر ترقیاتی سکیموں کے لیے فنڈز جاری کریں تاکہ صوبوں میں پائی جانے والی احساس محرومی کا ازالہ ممکن ہو سکے۔ 22 کروڑ عوام کو برابری کی بنیاد پر یکساں بنیادی حقوق فراہم کریں۔الیکشن 2013میں قوم سے کیے وعدے پورے کریں۔ جناب چیف جسٹس صاحب نے فرمایا ریاست مالک نہ بنے بلکہ عوام کی کفیل بنے۔ اس لیے اگر ریاست کی ذمہ داری عوام کی کفالت ہے تو پھر تھر میں بھوک اور پیاس سے مرنے والوں کا بچوں کا خون ریاست کی گردن پر ہے۔ یاد رکھنا چاہیے ہمارا اللہ بہت بڑا انصاف کرنے والا ہے اور طاقت والا ہے اور یہ اقتدار اور اختیارات اور کرسی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کسی کی میراث نہیں ہے ہر عروج کو زوال ہے باقی رہ جانے والی ذات صرف واحد اللہ رب العزت کی ہے اس نے نشانیاں دے چھوڑی ہیں فرعون نمرود،شداد، چنگیز، ہلاکو، حجاج، سکندر اعظم (الیگزینڈر) کو چھوڑو ماضی قریب کی نشانیوں کو دیکھ لو حکمران وقت کا تخت سے تختے تک کا سفر ماضی قریب ہے۔ بے شک کرسی صرف اورِ صرف اسی کی مضبوط ہے جو واسع کرسیہ السموات والارض ہے۔ اور بے شک ہمارے رب کی پکڑ بہت سخت ہے۔
Share on Whatsapp

About Jhang Tezz

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں