کھپے کھپے ۔۔ پاکستان کھپے
از:جمیل فاروقی
جس ملک کے نااہل وزیر اعظم کو بے قصور ۔۔اور قصور ۔۔شہر کے ظالم چوہدریوں کو’پارسا‘ کہا جاتا ہو ۔۔ جہاں الیکشن کی جگہ سلیکشن ہوتی ہو اور سلیکشن کی آڑ میں کوٹے پر بھرتیاں ۔۔ جہاں استاد کو ماسٹر کہا جاتا ہو اور ٹیلر ماسٹر کو استاد ۔۔جہاں ملک کاصدر ممنون موڈ (Mamnoon Mode)میں ہواور پڑھا لکھا نوجوان جی ٹی روڈ پہ ۔۔جہاں کتابیں فٹ پاتھ پر سجائی جاتی ہوں اورفلمیں ائیر کندیشنڈ سینما ہالز میں ۔۔ جہاں محنت کرنے والاطالبعلم سسک سسک کے پوزیشن لاتا ہو اور اَن پڑھ ، انگوٹھا ٹیک، جعلی ڈگری ہولڈر سیاست دان گولڈ میڈل پہناتاہو ۔۔ جہاں چوہدریوں ، وڈیروں ، سرداروں اور زرداروں کی حکومت بنتی ہو ۔اور ان کو ووٹ دینے والی’ بیچاری ماں‘۔۔ رکشے میں بچے جنتی ہو ۔۔ جہاں بدعنوانی کا راج ہو اور بدعنوانوں سے بھی ۔۔ابتر۔۔ سماج ہو ۔۔وہاں راو انوار اور ڈاکٹر عاصم حسین جیسے کرداروں کو پولیس پروٹیکشن نہ دے ۔۔تو اور کیا کرے۔۔راو انوار کہاں ہے ! آج کل یہ سوال زبان زدِعام ہے ۔۔ اس سوال کا مصدقہ جواب تو آپ کو اس کالم کے آخر میں مل جائے گا لیکن سندھ پولیس کے کرتا دھرتا کہتے ہیں کہ راو انوار کی واٹس ایپ کالز ٹریس کرنے کی Competenceیعنی صلاحیت نہیں ہے ۔۔ہمارا سوال یہ ہے کہ مان لیا کم صلاحیت ہے لیکن جتنی صلاحیت ہے ۔۔ کیا اس کو بروئے کار لانے کاحوصلہ اور ہمت بھی ہے!۔۔ پولیس کس طرح تفتیش کرتی ہے، کیا ہم سب اس سے ناواقف ہیں ۔۔ ایسا قطعی نہیں ہے ۔۔ ہم جان بوجھ کے حقائق پر پردہ ڈالے بیٹھے ہیں۔۔ پولیس کا روایتی طریقہء تفتیش بتانے کے لئے ناچیز کے ساتھ بیتنے والا یہ واقعہ کافی ہے ۔۔ ہمارے اردگرد کے لوگوں کی پوری زندگی ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے ۔۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے ، یہ 14اگست 2002 ء کی ایک کربناک شام تھی۔۔ مجھ سمیت کراچی یونیورسٹی کے کچھ دیگر اسٹوڈنٹس کراچی کے گنجان آباد علاقے گلستان جوہر میں واقع رابعہ سٹی کے ایک اپارٹمنٹ میں قیام پذیر تھے ۔۔ تعلیمی اور ادبی دور تھا تو اپنے بلاک کے ایک ایک فلیٹ میں رہائش پذیر فیملی سے کم ازکم ناچیز کے نہایت ہی اچھے تعلقات تھے اور اسی بہانے کھانے پینے کی اشیا ء کا تبادلہ بھی سرشام ہوا کرتا تھا ۔۔ ہمارے فلیٹ کے عین برابر میں میرپورخاص سے ایک فیملی شفٹ ہو کر آئی تھی ۔۔ ان کے گھر میں دو۔۔ داڑھی والے مرد اور دو خواتین تھیں ۔۔ دونوں مرد کپڑے کا کاروبار کرتے تھے جب کہ بزرگ خواتین گھر میں سلائی کر کے گزر بسر کرتی تھیں ۔۔ اس شام کچھ ایسا ہوا جس کا مشاہدہ ناچیز نے اپنی آنکھوں سے پہلے کبھی نہیں کیا تھا ۔۔ شام کے عین سات بجے پانچ پولیس موبائلز رابعہ سٹی میں داخل ہوئیں اور لوگوں سے پوچھ گچھ کرتے ہوئے پولیس والے ہمارے فلیٹ کے سامنے آکھڑے ہوئے ۔۔دروازے پر دستک ہوئی ، ناچیز نے دروازہ کھولا تو پولیس والے دندناتے ہوئے اندر آگئے ۔۔اور ہم پر ایسے بندوقیں تان لیں جیسے ہم سے بڑا دہشت گرد کوئی نہ ہو ۔۔ ان کے ایس ایچ او نے استفسار کیا کہ میرپور خاص سے ’اسلم چانڈیو‘ کون ہے ۔۔ ڈر کے مارے سارے خاموش تھے ۔۔ ناچیز نے ہمت کر کے بتا دیا کہ میرپور سے آئی ہوئی فیملی برابر والے اپارٹمنٹ میں رہتی ہے ۔۔ اورہم سب اسٹوڈنٹس ہیں۔۔ خیر جب فلیٹ سے کتابوں کے علاوہ کچھ برآمد نہ ہوا تو وہ تسلی کر کے برابر والے فلیٹ کی طرف چلے گئے ۔۔ اسلم چانڈیو ۔۔جس کی تلاش میں سندھ پولیس تھی۔۔ میر پور خاص سے تعلق رکھنے والا کپڑے کا سوداگر تھا ۔۔ سر پہ ٹوپی ، ماتھے پہ سجدوں کا گہرا نشان اور پانچ وقت کا نمازی ۔۔ بس یہی اس کے گزر بسر کا انداز تھا۔۔ کپڑے کا سودا کرتے اسے پندرہ سال ہو چلے تھے ۔۔ اس کی کبھی کسی سے لڑائی نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی وہ اس سوچ کا مالک تھا ۔۔مقامی ایم این اے کی فیملی اسلم چانڈیو سے ہی کپڑے کا لین دین کرتی تھی ۔۔ اور اس ضمن میں وہ کپڑے گھروں میں مہیا کرتا تھا ۔۔ ہوا یوں کہ مقامی ایم این اے کی اہلیہ کا ہیرے کا ہار گم ہوا تو انہوں نے اسلم چانڈیو پر شک کرتے ہوئے اس کے خلاف پرچہ کٹا دیا ۔۔ اسلم جب میر پو ر خاص میں نہ ملا تو اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے پولیس کراچی کے رابعہ سٹی تک آن پہنچی ۔۔ ہمارے اپارٹمنٹ سے ہونے کے بعد برابر والے فلیٹ پر دستک دی گئی ، بزرگ خاتون باہر آئی تو اس سے بھی اسلم کا پوچھا گیا ۔۔ ۔۔ اسلم اس بزرگ خاتون کا شوہر تھا ، خاتون نے کہا کہ اسلم قالین کی خریداری کے لئے ایران گیا ہوا ہے ۔۔تاہم پولیس والوں نے اپنی تسلی کے لئے گھر کے اندر ریڈ کی ۔۔ اس دوران برتنوں کے ٹوٹنے اور گالم گلوچ کی واضح آواز یں آتی رہیں ۔۔ پھرپولیس والے اسلم چانڈیوکی عدم دستیابی پر خواتین کو بالوں سے پکڑ کرگھسیٹتے ہوئے پولیس موبائل تک لے گئے ۔۔ ان کے چہروں پر عجیب سی سفاکی اور بے باکی تھی اور بار بار یہی کہہ رہے تھے کہ اسلم نہیں مل رہا تو کوئی بات نہیں اس کے گھر والوں کو اتنا مارو کہ اسلم بھاگتا ہوا تھانے آئے اور اپنا جرم قبول کر لے ۔۔ اب یہ تو پتہ نہیں کہ اسلم چانڈیو کے ساتھ بعد میں کیا ہوا ۔۔ لیکن جس طریقہ سے پولیس نے ملزم کے بھائی، بہنوں اور خاندان کے دیگر افراد کو زدوکوب کیا ، یقینایہ ایک روایتی طریقہء تفتیش تھا اور عمومی طور پر پولیس اسی طریقے سے ملز م تک پہنچتی ہے۔۔یہ وہ طریقہء تفتیش ہے جو عوام کے لئے چنا گیا ہے لیکن خواص کے لئے ہمارے ہاں نظام ہی الگ ہے ۔۔راو انوار کو ہی دیکھ لیجئے ۔۔ سینکڑوں جعلی انکاونٹرز کرنے والا پولیس اور حساس اداروں کی نظروں سے ایسے اوجھل ہے جیسے کہانیوں میں عمرو عیار سلیمانی ٹوپی پہن کے غائب ہو جایا کرتا تھا ۔۔ مسئلہ یہ نہیں کہ پولیس اتنے ہائی پروفائل قاتل کو پکڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ۔۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس کام کو انجام کون دے گا ۔۔ نہیں مل رہا راو انوار۔۔ تو کوئی بات نہیں ۔۔ راو انوار کے بھائی ، بہن ، بہنوئی اور گھر کی دیگر خواتین تو ہونگی ناں ۔۔ پولیس ایک ایک کرکے ان سب کو اٹھائے اور دے رگڑے پہ رگڑا ۔۔ پھر دیکھتے ہیں راو انوار کیسے چیختا چلاتا ہوا واپس نہیں آتا ۔۔اور کیسے اپنے جرم کا اقرار نہیں کرتا ۔۔ لیکن یہ طریقہ تو آپ اور ہم جیسوں کیلئے ہے اس سے راو انوار کا کیا لینا دینا ۔۔یہ ہمت بھی تو Willingnessیعنی منشاء کے بغیر ممکن نہیں ہے اور جب’ پاکستان کھپے‘ کا نعرہ لگانے والوں کی ملزم تک پہنچنے کی منشا نہ ہو تو سوال کس سے کیا جائے ۔۔ ڈر تو یہ ہے کہ جس طرح دیت کے آپشن پر عمل کرانے کے لئے مولانا فضل الرحمن کوشاں ہیں ۔۔ اگر وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو پہلے کی طرح اس کیس میں بھی بچ نکلنے کی صورت میں راو انوارمزید چوڑا نہ ہوجائے ۔۔اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ ڈاکٹر عاصم جیسے بدعنوان شخص کو اگر سندھ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا سربراہ بنایا جا سکتا ہے تو راو انوار کو بھی ممکنہ طور پر پولیس کے کسی یونٹ کا انچارج بنا دیا جائے ۔۔اس ملک میں کچھ بھی ممکن ہے یہاں کل کلاں راو انوار کوریٹائرمنٹ کے بعد کسی صوبے کا گورنر یاملک کا صدر بھی بنایا جا سکتا ہے ۔۔بھائی یہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔۔ یہاں وفاداریاں پالنے والے کتوں کو ہی ہڈی ڈالی جاتی ہے ۔۔۔ یہاں ناچیز یہ بات انتہائی وثوق کے ساتھ کہہ رہا ہے کہ راو انوار اس وقت لندن یا دبئی میں موجود ہے ۔۔ پاکستان سے اسے گئے ہوئے کئی روز گزر چکے ہیں ۔۔ میں بار بار سوشل میڈیا پر بھی واویلا کر چکا ہوں کہ راو انوار پاکستان میں نہیں ہے ۔۔ اسے بذریعہ پرائیویٹ جہاز ملک سے باہربھگانے میں بھی انہی لوگوں کاہاتھ ہے جو نقیب اللہ محسود کے خاندان کو پیسوں کا لالچ دے کر فائل کو بند کرنا چاہ رہے ہیں ۔۔ جنہوں نے نقیب اللہ محسود کے موبائل فون کا گزشتہ ایک سال کاریکارڈمبینہ طور پر ضائع کر دیا ہے اور جو نہیں چاہتے کہ راو انوار پر کوئی حرف آئے ۔۔جو عوام کو بھی دھوکہ دے رہے ہیں اور سپریم کورٹ کو بھی ۔۔ جو اس ماورائے عدالت قتل کے حقائق کو بری طرح مسخ کر چکے ہیں اور جنہیں روٹی کپڑے اور مکان کے حصول میں الجھی اس قوم سے کوئی غرض نہیں ۔۔ جو کھپے کھپے ۔۔ پاکستان کھپے ۔۔ کا نعرہ تو لگاتے ہیں لیکن حقیقت میں بدعنوانوں اور قاتلوں کو بچاتے ہیں ۔۔ وہی راو انوار کے حامی ہیں ۔۔ ان سب کے اندر ایک راو انوار ہے۔۔۔ اور۔۔ دراصل ۔۔۔وہی راو انوار ہیں ۔۔۔
از:جمیل فاروقی
جس ملک کے نااہل وزیر اعظم کو بے قصور ۔۔اور قصور ۔۔شہر کے ظالم چوہدریوں کو’پارسا‘ کہا جاتا ہو ۔۔ جہاں الیکشن کی جگہ سلیکشن ہوتی ہو اور سلیکشن کی آڑ میں کوٹے پر بھرتیاں ۔۔ جہاں استاد کو ماسٹر کہا جاتا ہو اور ٹیلر ماسٹر کو استاد ۔۔جہاں ملک کاصدر ممنون موڈ (Mamnoon Mode)میں ہواور پڑھا لکھا نوجوان جی ٹی روڈ پہ ۔۔جہاں کتابیں فٹ پاتھ پر سجائی جاتی ہوں اورفلمیں ائیر کندیشنڈ سینما ہالز میں ۔۔ جہاں محنت کرنے والاطالبعلم سسک سسک کے پوزیشن لاتا ہو اور اَن پڑھ ، انگوٹھا ٹیک، جعلی ڈگری ہولڈر سیاست دان گولڈ میڈل پہناتاہو ۔۔ جہاں چوہدریوں ، وڈیروں ، سرداروں اور زرداروں کی حکومت بنتی ہو ۔اور ان کو ووٹ دینے والی’ بیچاری ماں‘۔۔ رکشے میں بچے جنتی ہو ۔۔ جہاں بدعنوانی کا راج ہو اور بدعنوانوں سے بھی ۔۔ابتر۔۔ سماج ہو ۔۔وہاں راو انوار اور ڈاکٹر عاصم حسین جیسے کرداروں کو پولیس پروٹیکشن نہ دے ۔۔تو اور کیا کرے۔۔راو انوار کہاں ہے ! آج کل یہ سوال زبان زدِعام ہے ۔۔ اس سوال کا مصدقہ جواب تو آپ کو اس کالم کے آخر میں مل جائے گا لیکن سندھ پولیس کے کرتا دھرتا کہتے ہیں کہ راو انوار کی واٹس ایپ کالز ٹریس کرنے کی Competenceیعنی صلاحیت نہیں ہے ۔۔ہمارا سوال یہ ہے کہ مان لیا کم صلاحیت ہے لیکن جتنی صلاحیت ہے ۔۔ کیا اس کو بروئے کار لانے کاحوصلہ اور ہمت بھی ہے!۔۔ پولیس کس طرح تفتیش کرتی ہے، کیا ہم سب اس سے ناواقف ہیں ۔۔ ایسا قطعی نہیں ہے ۔۔ ہم جان بوجھ کے حقائق پر پردہ ڈالے بیٹھے ہیں۔۔ پولیس کا روایتی طریقہء تفتیش بتانے کے لئے ناچیز کے ساتھ بیتنے والا یہ واقعہ کافی ہے ۔۔ ہمارے اردگرد کے لوگوں کی پوری زندگی ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے ۔۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے ، یہ 14اگست 2002 ء کی ایک کربناک شام تھی۔۔ مجھ سمیت کراچی یونیورسٹی کے کچھ دیگر اسٹوڈنٹس کراچی کے گنجان آباد علاقے گلستان جوہر میں واقع رابعہ سٹی کے ایک اپارٹمنٹ میں قیام پذیر تھے ۔۔ تعلیمی اور ادبی دور تھا تو اپنے بلاک کے ایک ایک فلیٹ میں رہائش پذیر فیملی سے کم ازکم ناچیز کے نہایت ہی اچھے تعلقات تھے اور اسی بہانے کھانے پینے کی اشیا ء کا تبادلہ بھی سرشام ہوا کرتا تھا ۔۔ ہمارے فلیٹ کے عین برابر میں میرپورخاص سے ایک فیملی شفٹ ہو کر آئی تھی ۔۔ ان کے گھر میں دو۔۔ داڑھی والے مرد اور دو خواتین تھیں ۔۔ دونوں مرد کپڑے کا کاروبار کرتے تھے جب کہ بزرگ خواتین گھر میں سلائی کر کے گزر بسر کرتی تھیں ۔۔ اس شام کچھ ایسا ہوا جس کا مشاہدہ ناچیز نے اپنی آنکھوں سے پہلے کبھی نہیں کیا تھا ۔۔ شام کے عین سات بجے پانچ پولیس موبائلز رابعہ سٹی میں داخل ہوئیں اور لوگوں سے پوچھ گچھ کرتے ہوئے پولیس والے ہمارے فلیٹ کے سامنے آکھڑے ہوئے ۔۔دروازے پر دستک ہوئی ، ناچیز نے دروازہ کھولا تو پولیس والے دندناتے ہوئے اندر آگئے ۔۔اور ہم پر ایسے بندوقیں تان لیں جیسے ہم سے بڑا دہشت گرد کوئی نہ ہو ۔۔ ان کے ایس ایچ او نے استفسار کیا کہ میرپور خاص سے ’اسلم چانڈیو‘ کون ہے ۔۔ ڈر کے مارے سارے خاموش تھے ۔۔ ناچیز نے ہمت کر کے بتا دیا کہ میرپور سے آئی ہوئی فیملی برابر والے اپارٹمنٹ میں رہتی ہے ۔۔ اورہم سب اسٹوڈنٹس ہیں۔۔ خیر جب فلیٹ سے کتابوں کے علاوہ کچھ برآمد نہ ہوا تو وہ تسلی کر کے برابر والے فلیٹ کی طرف چلے گئے ۔۔ اسلم چانڈیو ۔۔جس کی تلاش میں سندھ پولیس تھی۔۔ میر پور خاص سے تعلق رکھنے والا کپڑے کا سوداگر تھا ۔۔ سر پہ ٹوپی ، ماتھے پہ سجدوں کا گہرا نشان اور پانچ وقت کا نمازی ۔۔ بس یہی اس کے گزر بسر کا انداز تھا۔۔ کپڑے کا سودا کرتے اسے پندرہ سال ہو چلے تھے ۔۔ اس کی کبھی کسی سے لڑائی نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی وہ اس سوچ کا مالک تھا ۔۔مقامی ایم این اے کی فیملی اسلم چانڈیو سے ہی کپڑے کا لین دین کرتی تھی ۔۔ اور اس ضمن میں وہ کپڑے گھروں میں مہیا کرتا تھا ۔۔ ہوا یوں کہ مقامی ایم این اے کی اہلیہ کا ہیرے کا ہار گم ہوا تو انہوں نے اسلم چانڈیو پر شک کرتے ہوئے اس کے خلاف پرچہ کٹا دیا ۔۔ اسلم جب میر پو ر خاص میں نہ ملا تو اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے پولیس کراچی کے رابعہ سٹی تک آن پہنچی ۔۔ ہمارے اپارٹمنٹ سے ہونے کے بعد برابر والے فلیٹ پر دستک دی گئی ، بزرگ خاتون باہر آئی تو اس سے بھی اسلم کا پوچھا گیا ۔۔ ۔۔ اسلم اس بزرگ خاتون کا شوہر تھا ، خاتون نے کہا کہ اسلم قالین کی خریداری کے لئے ایران گیا ہوا ہے ۔۔تاہم پولیس والوں نے اپنی تسلی کے لئے گھر کے اندر ریڈ کی ۔۔ اس دوران برتنوں کے ٹوٹنے اور گالم گلوچ کی واضح آواز یں آتی رہیں ۔۔ پھرپولیس والے اسلم چانڈیوکی عدم دستیابی پر خواتین کو بالوں سے پکڑ کرگھسیٹتے ہوئے پولیس موبائل تک لے گئے ۔۔ ان کے چہروں پر عجیب سی سفاکی اور بے باکی تھی اور بار بار یہی کہہ رہے تھے کہ اسلم نہیں مل رہا تو کوئی بات نہیں اس کے گھر والوں کو اتنا مارو کہ اسلم بھاگتا ہوا تھانے آئے اور اپنا جرم قبول کر لے ۔۔ اب یہ تو پتہ نہیں کہ اسلم چانڈیو کے ساتھ بعد میں کیا ہوا ۔۔ لیکن جس طریقہ سے پولیس نے ملزم کے بھائی، بہنوں اور خاندان کے دیگر افراد کو زدوکوب کیا ، یقینایہ ایک روایتی طریقہء تفتیش تھا اور عمومی طور پر پولیس اسی طریقے سے ملز م تک پہنچتی ہے۔۔یہ وہ طریقہء تفتیش ہے جو عوام کے لئے چنا گیا ہے لیکن خواص کے لئے ہمارے ہاں نظام ہی الگ ہے ۔۔راو انوار کو ہی دیکھ لیجئے ۔۔ سینکڑوں جعلی انکاونٹرز کرنے والا پولیس اور حساس اداروں کی نظروں سے ایسے اوجھل ہے جیسے کہانیوں میں عمرو عیار سلیمانی ٹوپی پہن کے غائب ہو جایا کرتا تھا ۔۔ مسئلہ یہ نہیں کہ پولیس اتنے ہائی پروفائل قاتل کو پکڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ۔۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس کام کو انجام کون دے گا ۔۔ نہیں مل رہا راو انوار۔۔ تو کوئی بات نہیں ۔۔ راو انوار کے بھائی ، بہن ، بہنوئی اور گھر کی دیگر خواتین تو ہونگی ناں ۔۔ پولیس ایک ایک کرکے ان سب کو اٹھائے اور دے رگڑے پہ رگڑا ۔۔ پھر دیکھتے ہیں راو انوار کیسے چیختا چلاتا ہوا واپس نہیں آتا ۔۔اور کیسے اپنے جرم کا اقرار نہیں کرتا ۔۔ لیکن یہ طریقہ تو آپ اور ہم جیسوں کیلئے ہے اس سے راو انوار کا کیا لینا دینا ۔۔یہ ہمت بھی تو Willingnessیعنی منشاء کے بغیر ممکن نہیں ہے اور جب’ پاکستان کھپے‘ کا نعرہ لگانے والوں کی ملزم تک پہنچنے کی منشا نہ ہو تو سوال کس سے کیا جائے ۔۔ ڈر تو یہ ہے کہ جس طرح دیت کے آپشن پر عمل کرانے کے لئے مولانا فضل الرحمن کوشاں ہیں ۔۔ اگر وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو پہلے کی طرح اس کیس میں بھی بچ نکلنے کی صورت میں راو انوارمزید چوڑا نہ ہوجائے ۔۔اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ ڈاکٹر عاصم جیسے بدعنوان شخص کو اگر سندھ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا سربراہ بنایا جا سکتا ہے تو راو انوار کو بھی ممکنہ طور پر پولیس کے کسی یونٹ کا انچارج بنا دیا جائے ۔۔اس ملک میں کچھ بھی ممکن ہے یہاں کل کلاں راو انوار کوریٹائرمنٹ کے بعد کسی صوبے کا گورنر یاملک کا صدر بھی بنایا جا سکتا ہے ۔۔بھائی یہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔۔ یہاں وفاداریاں پالنے والے کتوں کو ہی ہڈی ڈالی جاتی ہے ۔۔۔ یہاں ناچیز یہ بات انتہائی وثوق کے ساتھ کہہ رہا ہے کہ راو انوار اس وقت لندن یا دبئی میں موجود ہے ۔۔ پاکستان سے اسے گئے ہوئے کئی روز گزر چکے ہیں ۔۔ میں بار بار سوشل میڈیا پر بھی واویلا کر چکا ہوں کہ راو انوار پاکستان میں نہیں ہے ۔۔ اسے بذریعہ پرائیویٹ جہاز ملک سے باہربھگانے میں بھی انہی لوگوں کاہاتھ ہے جو نقیب اللہ محسود کے خاندان کو پیسوں کا لالچ دے کر فائل کو بند کرنا چاہ رہے ہیں ۔۔ جنہوں نے نقیب اللہ محسود کے موبائل فون کا گزشتہ ایک سال کاریکارڈمبینہ طور پر ضائع کر دیا ہے اور جو نہیں چاہتے کہ راو انوار پر کوئی حرف آئے ۔۔جو عوام کو بھی دھوکہ دے رہے ہیں اور سپریم کورٹ کو بھی ۔۔ جو اس ماورائے عدالت قتل کے حقائق کو بری طرح مسخ کر چکے ہیں اور جنہیں روٹی کپڑے اور مکان کے حصول میں الجھی اس قوم سے کوئی غرض نہیں ۔۔ جو کھپے کھپے ۔۔ پاکستان کھپے ۔۔ کا نعرہ تو لگاتے ہیں لیکن حقیقت میں بدعنوانوں اور قاتلوں کو بچاتے ہیں ۔۔ وہی راو انوار کے حامی ہیں ۔۔ ان سب کے اندر ایک راو انوار ہے۔۔۔ اور۔۔ دراصل ۔۔۔وہی راو انوار ہیں ۔۔۔


0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں