زندگی کا مقصد تحریر:سبطین عباس ساقی
السلام علیکم! ہر شخص آج کل اپنی ذاتی مصروفیات کی وجہ سے یہ سوچنے سے بھی قاصر ہے کہ ہمارا اس جہاں میں آنے کا مقصد کیا ہے.ہمیں ذات ِ باری تعالی نے کس لیے خلق کیا ہے.
صبح ہی سے اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتا ہے شام کو گھر آتا ہے تو اپنے کاموں سے اتنا تھکا ہوا کہ اسی وقت نیند کی لپیٹ میں آجاتا ہے.
اللہ تعالی نے اس جہاں میں انسان کو یا تو غریب پیدا کیا یا امیر, حاکم یا محکوم.اللہ تعالی نے غریب,کالااور محکوم بنا کر انسان کو آزمایا کہ معلوم ہو یہ شخص کتنا صابر ہے اورامیراور حاکم بنا کر آزمایا کہ یہ شاکر کیسا ہے اور کیا اپنے غریب اور محکوم بھائیوں کی مدد بھی کرتے یا صرف اپنے مفاد کی سوچتے ہیں.
آج کل اس جدید دور میں غریب کے پاس دو وقت کا کھانا نہیں.امیر کے پاس کھانا تو ہے مگر کھانے کے لیے وقت نہیں.غریب بے چارہ سارا دن مزدوری کرتا ہے اور کام کرتے ہوئے اولاد کی فکر کرتا ہے.جبکہ امیر گھر میں فارغ ہونے کے باوجود بھی اپنا روپیہ بڑھانے کی فکر میں رہتا ہے.
اک انسان نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں جاتا ہے اور نماز سے فارغ ہوتے ہی اپنے کاموں میں مشغول اور کچھ تو جمعہ کے روز بھی اپنی ترقی کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے خطبہ جمعہ بھی نہیں سن پاتے .اگر ایک لمحے کے لیے یہ بات سوچیں کہ خدانخواستہ جب نماز کے بعد مسجد سے جلدی آنے کی کوشش میں موت واقع ہو جائے تو...
اس شخص کی کمائی گئی دولت سے اس کو آخرت میں کوئی بھی فائدہ حاصل نہیں ہو پائے گا.اگر ہو سکے تو اک کفن کا ٹکڑا وہ بھی قسمت میں ہو تو.....
ہم نے آج تک پیارے نبی کریم (ص)کے بارے میں بہت ساری روایات ایسی بھی سنی کہ جن سے آپ(ص)کا خلوص,اسلام کے لیے محنت اور طائف میں ازیت سہہ کر بھی عفودرگزر جیسے انمول موتے ملتے ہیں.
لیکن آج ایک امیر کو اپنے غریب بھائی کا احساس نہیں.ایک حاکم اپنی رعایا کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا.الحمد اللہ آج دیگر ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی عوام کو اپنی رائے دہی کا استعمال کرنے کا حق حاصل ہے.عوام بے چاری اپنے حقوق کی خاطر روزگار اور دیگر سہولیات کے وعدے سن کر پولنگ اسٹیشن پہ تقریباً ہر مصیبت سے دوچار ہوتی ہے اور دھکے کھا کھا کر جب شام کو یہ اعلان سنتی ہے کہ ہمارا منتخب نمائندہ کامیاب ہو چکا ہے تو خوشی کے مارے پھولے نہیں سماتی اور اسی خوشی میں عوامی نمائندے جب کسی نشست کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو دیہی علاقوں کی بجائے شہری علاقوں کا دورہ کر کر نہیں تھکتے.
عوامی نمائندے تو عوام سے کیے گئے ہر وعدے کو بھلا دیتے ہیں اور آج بھی پاکستان ہی میں حقوق العباد کی ادائیگی یکساں نہیں.کسی جگہ کو جنت بنانے کی بات کی جا رہی ہے تو کہیں پر ابھی بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں.وہی عوامی نمائندے جب پیسہ عوام کی بجائے اپنے بینک اکاؤنٹس میں جمع کروادیں تو کیا اس ملک میں مہنگائی عام نہ ہو گی وہاں پر زر اور زمین پر قتلِ عام نہ ہو گا اور وہ بھی عوام کا....
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا
یہ بات جب عوام خود ہی نہ بتائے گی تو سینکڑوں مریض ایک دن میں دوائی کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے جانبر نہ ہو سکیں گے.اگر ہم اللہ تبارک و تعالی اور اس کے محبوب نبی کریم (ص)کی زندگی پہ عمل کر لیں تو کسی کو یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا
حضرت موسی علیہ السلام اور فرعون دونوں اپنے ساتھیوں کوایک ہی راستے سے جارہے تھےفرعون دریا میں اپنے ساتھیوں سمیت غرق ہو گیا جبکہ حضرت موسی علیہ السلام اپنے ساتھیوں کی قیادت کرتے ہوئے دریا میں سے بھی راستہ بنا کر منزل پہ جا پہنچے اس واقعے نے یہ ثابت کر دیا کہ اگر قیادت حق و سچ پر ہو اگر قیادت اپنے اور اپنے ساتھیوں کی فکر میں رہتی ہو زاتی مفادات کو ترک کر دیتی ہو تو منزل آسان ہو جاتی ہے دریا بھی اس قوم کا راستہ چھوڑ دیتے ہیں
عوام خود ہی اپنے لیے قیادت منتخب کرتی ہے.اگر یہ قوم ایسی قیادت کو منتخب کریں جو خود بھی عوامی ہو اور عوام ہی کی بھلائی چاہتا ہو تو وہ دن دور نہیں کہ پاکستان ایک پر امن اور دہشتگردی سے پاک ملک بن جائے گا اور اتنی ترقی کرے گا کہ ترقی یافتہ ممالک بھی رشک کریں گے.اور انشااللہ وہ دن بھی آئے گا کہ عوام کے بھی عام مسائل حل ہونگے اور منزل مقصود حاصل ہو پائے گی.
اس زندگی کا مقصد صرف انا کی ترقی نہیں اپنے مفادات کی خوشحالی نہیں بلکہ اس ملک کی ترقی نصب العین ہے اور اسلام کو سلامت تا قیامت رکھنا ہے.شاعر نے ملت پاکستان کے لیے کیا خوب کہا ہے:
یہ پاک زمیں یہ پاک وطن پہچان ہماری ہے
خوں دے کے بزرگوں نے اس کی تصویر سنواری ہے
شعیہ اور سنی دونوں اس کے سچے وارث ہیں
یہ دھرتی مثل ماں ہے ہم کو جان سے پیاری ہے
والسلام
بشکریہ جھنگ تیز نیوز



0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں