پھول جس نے نوچ ڈالے ہیں چمن کے!!!!! تحریر:۔ ملک شفقت اللہ
کرپشن ایک ایسا لفظ ہے جو وسیع مفہوم کا حامل ہے ۔اردو میں اس کے معنی بدعملی ،بدعنوانی ،بد اخلاقی ،بگاڑ اور بدکاری کے استعمال ہوتے ہیں ۔کرپشن کا لفظ ہر زبان ،ہر ملک اور ہر معاشرے میں گھناؤنے اور منفی کاموں کیلئے بولا جاتا ہے اور اس کا اظہار نا پسندیدگی کے ساتھ کیا جاتا ہے کیوں کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ کسی بھی صور ت اچھا عمل نہیں ہے ۔ اگر بدعنوانی کو ام الخبائث بھی کہا جائے تو بے جا نہیں ہو گا،کیوں کہ بے بہا برائیاں اس کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں ۔کرپشن اعلیٰ اقدار کی دشمن ہے جو معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ کر اندر سے سے کھوکھلا کر دیتی ہے اور میرے نزدیک یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ قوموں کی تباہی میں مرکزی کردار ہمیشہ کرپشن کا ہی ہوتا ہے ۔یہ ایک ایسی لعنت ہے کہ اگر ایک بار کسی معاشرہ پر آگرے تو ایک شاخ سے اگلی اور اگلی شاخ کو جکڑتی چلی جاتی ہے حتیٰ کہ زرد ویرانی کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا۔ یہاں تک کہ معاشرے کی اخلاقی صحت کے محافظ مذہبی اور تعلیمی ادارے بھی اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اگر کسی قوم کے رگ و پے میں کرپشن سرایت کر جائے تو وہ اپنی شناخت و ساخت اور مقام و مرتبے سے یوں ہاتھ دھو بیٹھتی ہے جیسے کوئی بلند مقام اس قوم کو کبھی ملا ہی نہیں تھا۔ کرپشن ایک ناسور کی مانند خطر ناک اور سماج کو سماجی موت سے ہمکنار کرنے والا بھیانک مرض ہے ،کرپشن معاشرے میں ایک اچھوت مرض کی صورت پھیلتی ہے اور زندگی کے تمام پہلوؤں کو تباہ کر دیتی ہے جس طرح آکاش کی زرد بیل درختوں کو جکڑ کر ان کی زندگی چوس لیتی ہے ۔کسی برائی کے خلاف جد وجہد کا انحصار معاشرہ کے اخلاقی معیاروں پر ہوتا ہے۔ اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کے ہم کس بات کو رد اور کس کو قبول کرتے ہیں۔ بد عنوانی کے رویوں کے ساتھ بدعنوانی کا مقابلہ ممکن نہیں۔ کوئی نگران اگر خود بد دیانت ہو تو لوٹ میں اپنا حصہ مانگ کر کرپشن میں معاونت کرتا ہے جس سے بربادی کا عمل اور گہرا ہو جاتا ہے۔ہمارا معاملہ یوں ہے کہ کرپشن کسی جڑواں بچے کی طرح پاکستان کے بنتے ہی ساتھ آ گئی تھی۔ وہ لوگ جو آج معاشرہ میں امتیازی حیثیت کے مالک ہیں، پاکستان کے ابتدائی دنوں کی تاریخ کو بڑی احتیاط سے چھپاتے ہیں۔ یہ لوگ کرپشن کے خلاف تقریریں تو کرتے ہیں لیکن کرپشن کی وجوہات اور پیدائش پر بات نہیں کرتے۔ یہ پاکستان کی ابتدائی تاریخ کا وہ افسوس ناک باب ہے جس میں ہماری کرپشن، موقع پرستی، مذہبی بلیک میل اور بے حسی کی جڑیں چھپی ہیں۔ ساری تاریخ کرپشن اور اقربا پروری کے افسانوں اور کہانیوں سے اٹی پڑی ہے۔ آج ہمیں حیرت ہوتی ہے کے آخر کرپشن کی شکایتیں کرنے اور ایک دوسرے پر فرد جرم عائد کرنے کا جواز کیا ہے؟ لیکن سچ یہ ہے کہ اس کا جواز موجود ہے، نرگسیت سے بھرے معاشرہ میں ایسا عمل فطری ہے۔ کیونکہ نرگسیت کے مریض کی مجبوری ہوتی ہے کہ وہ اپنا جرم دوسروں پر ڈال دے۔پاکستان میں کرپشن صحت مندی کی علامت بن گئی ہے، ایک ایسا عمل جو ذہانت کا معیار ہے، سماج میں موزوں ہونے کا ثبوت ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ کرپشن کو گالی دینا بھی اتنا ہی معیاری اور موزوں ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کے پاس دوسرے کی کرپشن کے ''ٹھوس'' ثبوتوں کے ساتھ ایک فہرست موجود ہوتی ہے جس کے ساتھ ویسی ہی ''کامیابیوں'' کی آرزو ہمارے دل میں مچلتی ہے۔پاکستان میں موجود تین بڑی سیاسی جماعتوں نے ایسا ہی ڈھونگ رچا رکھا ہے ،عمران خان نواز شریف کے خلاف ، نواز شریف عمران خان کے خلاف اور پیپلز پارٹی دونوں کے حق میں بھی اور مخالف بھی کئی ثبوت لئے پھرتے ہیں ۔تینوں جماعتیں اپنے اپنے حریف کو کرپشن کے میدان میں چست کرنے کیلئے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے اور عوامی جذبات سے کھیلنے میں مگن ہیں ،یہی حال مذہبی جماعتوں کا بھی ہے جو ان کے ساتھ جوڑ توڑ کر کے کہیں حکومت میں کسی کونے میں وزارتیں بٹورتے ہیں ۔عمل اور فکر کا یہ تضاد اس ریا کاری کو جنم دیتا ہے جو بد عملی کو دوام بخشتی ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جو ایک شاندار دین پر ایمان رکھتا ہے لیکن جن اصولوں کی تعظیم کرتا ہے عمل میں ان کے مخالف چلتا ہے، اسے ضمیر کی آسودگی کے لئے کسی بڑی تسلی کی ضرورت پڑتی ہے۔ لہذا ہمارے حکمرانوں نے معاشرہ کے لئے نمازوں اور حج کی رسوم تک محدود نمائشی اسلام کو بڑھاوا دیا ہے ۔ اس سے ہم اپنے ہر روز کے احساس ندامت کو دھو لیتے ہیں تاکہ ہر نئی صبح ہلکے پھلکے ہو کر پھر سے وہی کرنے نکلیں جو کل دھویا تھا۔ میرے نذدیک اس کا حل یہ ہے کہ ،ہرنئی نسل بھلائی پر ایمان اورمعصوم جذبے لیکر پاکیزہ پیدا ہوتی ہے۔ یہ معاشرہ جس میں وزیر اعظم سے قاصد تک اور مل مالک سے دہاڑی دار معاون تک تقریباً ہر کوئی تر بہ تر ہے اور نچڑ رہا ہے، یہاں نئی نسل کی رہنمائی کے لئے شاید کوئی موجود نہیں۔ انہیں مستقبل کی تعمیر کے لئے بڑی توجہ سے اپنے رستے بنانا ہونگے۔اچھے معاشروں کا مطالعہ اور ذہانت سے پوچھے جانے والے سوال وہ اوزار ہیں جو راستہ بنانے میں مدد دے سکتے ہیں۔ ہمیں امید ہے نئی نسلیں سائنس اور تخلیق کی دنیا کے ساتھ جینے کا فیصلہ کریں گی جو ایسا واحد راستہ ہے جو کرپشن سے آزاد ہے۔جھنگ کے معروف دانشور ،شاعر و مصنف ڈاکٹر محسن مگھیانہ چمن کو نوچ کھانے والوں کے نام کیا خوب پیغام لکھا ہے:
پھول جس نے نوچ ڈالے ہیں چمن کے
اس کو کاندھوں پہ اٹھائے پھر رہے ہیں
دم صدا بھرتا رہا ہے جن کا محسن
وہ اشاروں پر نچائے پھر رہے ہیں


0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں