ایک اور سال گزرنے کو ہے اور ہر سال کے آخر کی طرح اخبار، جریدے اور بی بی سی جیسی ویب سائٹس اپنے قارئین کے لیے سال کا خلاصہ پیش کرنے کے درپے ہوتی ہیں۔
اگرچہ ابھی تک اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ پڑھنے والوں کو اس یاددہانی کا ذرّہ برابر بھی فائدہ ہوتا ہے یا کہ قارین کو باسی خبروں اور تجزیوں سے کوئی خاص دلچسپی ہے لیکن ہم سب یہ کرتے ہیں کیونکہ ۔۔۔ سب کرتے ہیں!
مجھے بھی سال کی بہترین پانچ یا دس فلموں پر لکھنے کو کہا گیا۔ لیکن سچ پوچھیں تو جس سال صرف ڈیڑھ درجن اردو فلمیں ریلیز ہوئی ہوں (جن میں سے تین ابھی آنا باقی ہیں)، اُن میں سے پانچ اچھی فلمیں نکالنا بھی مشکل عمل ہوگا۔ اس لیے میں نے سوچا کہ اس سے بہتر ہے کہ سال کے پانچ ایسے ’تھیمز‘ کی نشاندہی کیوں نہ کی جائے جنھوں نے 2017 پر سب سے گہرا اثر چھوڑا ہے۔
تو اس سال کا میرا فلمی خلاصہ حاضرِخدمت ہے۔۔۔
اگر کسی نے 2017 میں پاکستانی سنیما انڈسٹری کی تقدیر کا تعیّن کیا ہے تو وہ سینسر بورڈ ہے اور وہ بھی اسلام آباد کا سینسر بورڈ، جو اٹھارویں ترمیم کے بعد محض اسلام آباد اور کنٹونمنٹ علاقوں تک محدود ہونا چاہییے لیکن جو پورے پاکستان پر اپنی اجارہ داری ختم کرنے کو تیّار نہیں نظر آتا۔
اس سال اسی سینسر بورڈ نے نہ صرف بالی وُڈ کی تین بڑی فلموں شاہ رُخ خان اور ماہرہ خان کی ’رئیس‘، اور سلمان خان کی ’ٹیوب لائٹ‘ اور ’ٹائیگر زندہ ہے‘ کی پاکستان میں نمائش روک دی بلکہ شعیب منصور کی ’ورنہ‘ کا بھی تماشہ بنایا جو آخر میں حکومت کی مداخلت کے سبب ہی سنیما میں پیش کی جا سکی۔
شاید اسلام آباد سے متاثر ہو کر کچھ دن کے لیے پنجاب کے سینسر بورڈ نے بھی ’نامعلوم افراد 2‘ کی نمائش میں رکاوٹیں کھڑی کر دی تھیں۔ یاد رہے کہ 2017 وہ سال تھا جس میں پاکستانی سنیما پچھلے سال کی حماقتوں کو بھُلا کر دوبارہ لڑکھڑاتے ہوۓ قدموں پر کھڑا ہونے کی کوشش کر رہا تھا تاکہ وہ فلم بین جنھوں نے2016 کی انڈین فلموں پر پابندی کے بعد سنیما جانا بند کر دیا تھا، اور سنیما انڈسٹری کو کروڑوں کے نقصان سے دوچار کر دیا تھا، وہ واپس سنیما کا رُخ کریں۔
کسی کو نہیں پتہ کہ اسلام آباد سینسر بورڈ کس بنیاد پر اپنے فیصلے کرتا ہے اور کیوں اُس میں ایسے لوگ بٹھائے جاتے ہیں جنھیں فلم کی سمجھ بوُجھ ہے نہ پاکستانی سنیما انڈسٹری کے مسئلوں کا کچھ اندازہ۔ لیکن بات یہی ہے کہ اگر اس سال کا کوئی سٹار پرفارمر ہے جس نے پاکستانی فلمی ماحول پر گہرا اثر چھوڑا ہے، تو وہ یہ سینسر بورڈ ہے۔ چاہے وہ عموماً ویلن کے کردار میں ہی آتا رہا ہے۔
اگر کسی جوڑی نے پاکستانی سنیما کو امید کی کچھ کرن دکھائی ہے تو وہ اس پروڈیوسر- ہدایتکار ٹیم نے دکھائی ہے۔ دو سال پہلے انھوں نے پاکستان کی سب سے کامیاب فلم ’جوانی پھر نہیں آنی‘ بنائی (جس نے دنیا بھر میں تقریباً 44 کروڑ روپے کماۓ) اور اس سال انھوں نے اپنے ہی ریکارڈ کو ’پنجاب نہیں جاؤں گی‘ سے توڑ دیا۔
’پنجاب نہیں جاؤں گی‘ (پی این جے) نے اب تک دنیا بھر سے 48 کروڑ روپے کما لیے ہیں۔ پاکستان کی خستہ حال سنیما انڈسٹری کے لیے اس سے بہتر کوئی خبر نہیں ہو سکتی تھی۔ ’پی این جے‘ اور ’نامعلوم افراد 2‘ کی بیک وقت کامیابی نے پاکستانی سنیما کو بہت سہارا دیا۔
مزے کی بات یہ بھی ہے کہ ’پی این جے‘، ’جوانی پھر نہیں آنی‘ سے بالکل مختلف فلم تھی جس نے نہ صرف ندیم بیگ کی ہدایتکارانہ صلاحیتوں کا اعتراف کروایا، بلکہ ہمایوں سعید کی اداکاری – جس پر کافی سوال اُٹھائے جا چکے ہیں- کو منوایا۔ خدا یہ جوڑی سلامت رکھے۔
اگر آپ نے ’پنجاب نہیں جاؤں گی‘ نہیں دیکھی تو شاید آپ کو خلیل الرحمٰن قمر کے اس مکالمے کا مطلب اور اس کی اہمیت کی سمجھ نہ آئے لیکن یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس ایک لائن کی زندگی اب اس فلم کے باہر اتنی ہی ہے جیسے پرانے وقتوں میں نوری نت کے مشہور تکیہ کلام ’نواں آیا اے سوہنیا‘ یا ’انکل عرفی‘ میں حسنات بھائی کے ’چاقو ہے میرے پاس‘ کی ہوا کرتی تھی۔ نقصان صرف اُن خواتین کا ہے جن کا نام اصل میں دردانہ ہے۔
عجب بات اس سال کی یہ ہے کہ اس سال میں دو کامیاب فلمیں ایسی ہیں جن کی کہانی کا بیشتر نہیں تو کم از کم کچھ حصّہ میاں بیوی کے جنسی رشتے (یا جنسی رشتہ نہ ہونا کہنا بہتر ہوگا) سے جُڑا ہوا ہے۔
’مہرانساء وی لب یوُ‘ میں کہانی کا سارا دارومدار اس بات پر ہے کہ ایک نئی نویلی دلہن اپنے خاوند سے رشتہ اس لیے قائم نہیں کرسکتی کیونکہ اِرد گِرد کے ماحول کی گندگی کی وجہ سے اس کے سٹریس لیول بہت بڑھ گئے ہیں۔ ’پنجاب نہیں جاؤں گی‘ میں بیوی اپنے کام میں اتنا محو ہو جاتی ہے کہ اسے اپنے شوہر کی ضرورتوں کا خیال نہیں رہتا۔ اس کے علاوہ شعیب منصور کی فلم ’ورنہ‘ تو ہے ہی ریپ کے بارے میں، جس کی وجہ سے بیوی (جس کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے) کی شوہر سے دوریاں بڑھ جاتی ہیں۔
شاید فلمسازوں نے ایک نئے رجحان کی نشاندہی کر لی ہے۔ حالانکہ پاکستان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی میں ایسا کوئی رجحان نظر تو نہیں آتا۔ بہر کیف، اِن فلموں نے سال کی ‘ایکشن’ فلموں، مثلاً ’یلغار‘، سے بہتر پرفارم کیا ہے۔ ‘ایکشن سے پاک’ فلموں کا بجٹ بھی کم ہوتا ہے۔
سیّد نور کی فلم ’چین آئے نہ‘ نے اپنی ناکامی سے سیّد نور کو بےچین چھوڑ دیا لیکن اس فلم کے ایک تھپّڑ نے (جو ہیرو ہیروئن کو رسید کرتا ہے اور جس کے باوجود یا جس کی وجہ سے ہیروئن کو ہیرو سے پیار ہوجاتا ہے) میڈیا اور سوشل میڈیا میں ہلچل مچا دی۔
اکثر تجزیوں میں اس تھپّڑ کا ذکر زور و شور سے ہوا اور پوچھا گیا کہ کیا ہمارے فلمساز عورتوں کے خلاف جبر اور ایسی دقیانوسی ذہنیت سے کبھی باہر آسکیں گے!
’پنجاب نہیں جاؤں گی‘ میں بھی ہیرو اپنی بیوی کو تھپّڑ مارتا ہے لیکن اس کے نتیجے میں بیوی شوہر کو چھوڑ کے چلی جاتی ہے اور دونوں کے خاندان شوہر کے رویّے کی مذمت کرتے ہیں اور آخرکار شوہر کو معافی مانگنی پڑتی ہے۔
’ورنہ‘ میں بھی شوہر بیوی کو ایک عدد چانٹا رسید کرتا ہے لیکن اس کے عوض بیوی پھر اُس کو گھوُنسے مار مار کر اُسے لہو لہان کر دیتی ہے اور اپنے خاوند کے ہوش ٹھکانے لگا دیتی ہے۔ ایک سال کے اندر اندر اس تبدیلی کو پروگریس ہی کہا جا سکتا ہے!



0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں