امیرشریعت سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ
(امیر اول مجلس تحفظ ختم نبوت)
انتخاب:۔حبیب الرحمن ملک
سید عطا اللہ شاہ بخاری دینی اور سیاسی رہنما مجلس احرار اسلام کے بانی تھے ۔1891ء کو پٹنہ میں پیدا ہوئے۔ آبائی وطن موضع ناگڑیاں ضلع گجرات پنجاب، پاکستان) تھا۔ لیکن آپ کے والد مولوی ضیاء الدین احمد نے بسلسلہ تبلیغ پٹنہ میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ سید صاحب زمانہ طالب علمی ہی میں سیاسی تحریکوں میں حصہ لینے لگے تھے۔ لیکن آپ کی سیاسی زندگی کی ابتدا 1918ء میں کانگرس اور مسلم لیگ کے ایک مشترکہ جلسے سے ہوئی۔ جو تحریک خلافت کی حمایت میں امرتسر میں منعقد ہوا تھا۔ سیاسی زندگی بھر پور سفروں میں گزاری اور ہندوستان کے تمام علاقوں کے دورے کیے۔ اپنے زمانے کے معروف ترین مقرر تھے اور لوگ ان کی تقریریں سننے کے لیے دور دور سے آتے تھے۔ سیاست میں "پنڈت کرپا رام برہمچاری، امیر شریعت اور ڈنڈے والا پیر " کے نام سے معروف تھے۔ حیات امیر شریعت سوانح سید عطاء اللہ شاہ بخاری از جانباز مرزا مکتبہ تبصرہ لاہور صفحہ انگریز اور احمدیت دشمنی میں صف اول میں رہے۔ حیات امیر شریعت سوانح سید عطاء اللہ شاہ بخاری از جانباز مرزا مکتبہ تبصرہ لاہور صفحہ 434 مجموعی طور پر 18 سال جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ 1929ء میں اپنے رفقا کے ساتھ مل کر مجلس احرار اسلام کے نام سے ایک علاحدہ سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔ اور کئی سال اس کے صدر رہے۔ مجلس احرار تحریک پاکستان کے شدید مخالف جماعت تھی۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب کا مؤقف تھاکہ "پاکستان کے بارے میں گذشتہ سال میں نے جس جگہ بھی تقریر کی ہے۔ پاکستان کو مسلمانان ہندوستان کے مہلک بلکہ ہلاکت آفرین اور ہلاکت خیز بتایا ہے۔[1]
کانوں میں گونجتے ہیں بخاری کے زمزمے
بلبل چہک رہا ہے ریاض رسول میں
مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کی شخصیت شاید کسی تعارف کی محتاج نہیں، تحریک ختم نبوت 1953 کے روح رواں تھے، ایسے مقرر و خطیب کے ہندو، عیسائی بھی ساری ساری رات بیٹھ کر انکی تقریر سنتے رہتے، شورش کشمیری جیسی بڑی بڑی شخصیات انکے حلقہ درس سے نکلیں. انگریز دور کے راولپنڈی ڈسٹرکٹ جیل کے سپرنٹنڈنٹ کرنل ہاورڈ اپنی کتا ب میں ان کے متعلق لکھتا ہے۔
"جن سیاسی قیدیوں نے مجھے اثنائے ملازمت بہت متاثر کیا، ان میں عطااللہ شاہ بخاری نام کا ایک سیاسی قیدی بڑی ہی دلفریب شخصیت کا مالک تھا،
اس کا چہرہ مہرہ چرچ کے ان مقدس راہبوں کی طرح تھا جن کی تصویر یسوس مسیح سے مشابہ ہوتی ہے، ان مستشرقین کی طرح جنہیں یورپ میں خاصی عزت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، ہم اسے عرب کے بڑے بڑے قاموسیوں سے بھی تشبیہہ دے سکتے ہیں ۔ ۔
میں اسے دوست بنانا چاہتا تھا لیکن ہمارے درمیان سب سے بڑی روک ہماری مختلف زبانیں تھیں۔
میں تو اس کی زبان کچھ نہ کچھ سمجھ ہی لیتا تھا، لیکن وہ انگریزی سے قطعا ناواقف تھے، وہ 1857 کی اس اینٹی برٹش باقیات میں سے تھا جنہیں ہمارے پیشروؤں نے پھانسی دے کر پیداکیا تھا"۔
"جن سیاسی قیدیوں نے مجھے اثنائے ملازمت بہت متاثر کیا، ان میں عطااللہ شاہ بخاری نام کا ایک سیاسی قیدی بڑی ہی دلفریب شخصیت کا مالک تھا،
اس کا چہرہ مہرہ چرچ کے ان مقدس راہبوں کی طرح تھا جن کی تصویر یسوس مسیح سے مشابہ ہوتی ہے، ان مستشرقین کی طرح جنہیں یورپ میں خاصی عزت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، ہم اسے عرب کے بڑے بڑے قاموسیوں سے بھی تشبیہہ دے سکتے ہیں ۔ ۔
میں اسے دوست بنانا چاہتا تھا لیکن ہمارے درمیان سب سے بڑی روک ہماری مختلف زبانیں تھیں۔
میں تو اس کی زبان کچھ نہ کچھ سمجھ ہی لیتا تھا، لیکن وہ انگریزی سے قطعا ناواقف تھے، وہ 1857 کی اس اینٹی برٹش باقیات میں سے تھا جنہیں ہمارے پیشروؤں نے پھانسی دے کر پیداکیا تھا"۔
(ہندوستان کی یادیں)
ختم نبوت ،جزو ایمانی:
قادیانی نبوت کے برگ و بار کو خاکستر کرنے والے، انگریزی سامراج کے ایوانوں کو متزلزل کرنے والے، سحر خطابت اور عمل پیہم سے ایمان کی روشنی پھیلانے والے مرد حق آگاہ، حضرت امیر شریعتؒ نے 1950ء میں ختم نبوت کی حفاظت کے متعلق تقریر کرتے ہوئے فرمایا:
"ختم نبوت کی حفاظت میرا جزو ایمان ہے جو شخص بھی اس ردا کو چوری کرے گا، جی نہیں چوری کا حوصلہ کرے گا، میں اس کے گریبان کی دھجیاں بکھیر دوں گا۔ میں میاںصلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کا نہیں نہ اپنا نہ پرایا، میں انہیصلی اللہ علیہ وسلم کا ہوں، وہی میرے ہیں، جن کے حسن و جمال کو خود ربِ کعبہ نے قسمیں کھا کھا کر آراستہ کیا ہو، میں انصلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و جمال پر نہ مر مٹوں تو لعنت ہے مجھ پر اور لعنت ہے ان پر جو انصلی اللہ علیہ وسلم کا نام تو لیتے ہیں لیکن سارقوں (چوروں) کی خیرہ چشمی کا تماشہ دیکھتے ہیں۔"
"ختم نبوت کی حفاظت میرا جزو ایمان ہے جو شخص بھی اس ردا کو چوری کرے گا، جی نہیں چوری کا حوصلہ کرے گا، میں اس کے گریبان کی دھجیاں بکھیر دوں گا۔ میں میاںصلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کا نہیں نہ اپنا نہ پرایا، میں انہیصلی اللہ علیہ وسلم کا ہوں، وہی میرے ہیں، جن کے حسن و جمال کو خود ربِ کعبہ نے قسمیں کھا کھا کر آراستہ کیا ہو، میں انصلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و جمال پر نہ مر مٹوں تو لعنت ہے مجھ پر اور لعنت ہے ان پر جو انصلی اللہ علیہ وسلم کا نام تو لیتے ہیں لیکن سارقوں (چوروں) کی خیرہ چشمی کا تماشہ دیکھتے ہیں۔"
جلسہ عام سے خطاب
تحریک ختم نبوت 1953ء کے دوران ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے سیّد عطا اللہ شاہ بخاریؒ نے فرمایا:
"اگر لانبی بعدی کا مفہوم سلامت نہیں تو ایمان کے جزو کا کروڑواں حصہ بھی نہیں بچے گا۔ جڑ کو گھن لگے تو شاخ اور پتیاں سلامت نہیں رہتیں۔ عقیدے کو درخت سمجھو۔ جب تک جڑ مضبوط نہ ہو، درخت بار آور نہیں ہو سکتا۔ اب وہ ماں مر گئی ہے جو نبی جنا کرتی تھی۔ مشاطہ ازل نے آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی زلفوں میں وہ کنگھی ہی توڑ ڈالی جو زلف نبوت سنوارا کرتی تھی۔ اب زمانے کے یہ کنڈل یونہی رہیں گے لیکن کسی کنگھی کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ آئیے ہمارے ساتھ تعاون کیجئے، ایک دن ہماری بات پورے مسلمانوں کی آواز بن جائے گی، جسے حکومت کو بھی سننا پڑے گا۔ ہمیں اپنے خدا پر پورا یقین اور بھروسہ ہے کہ ہم بھی حالات بدل کر دکھا دیں گے۔ ایک وقت آئے گا کہ جو کچھ آج ہماری زبان پر ہے، پورے مسلمانوں کے دل کی آواز اور دھڑکن ہوگا۔ بس میری مانو! حضور نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کے دیوانے بن جائو۔ اس معاملے میں عقل کو جواب دے دو کہ یہ عقل کا نہیں، عشق کا معاملہ ہے۔ صحابۂ کرامؓ بھی صحیح معنوں میں دیوانگان محمدصلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ تبھی پوری دنیا پر چھا گئے۔"
"مسلمانو! ختم نبوت کے عقیدہ کو یوں سمجھو جیسے یہ ایک مرکزِ دائرہ ہے جس کے چاروں طرف توحید، رسالت، قیامت، ملائکہ کا وجود، صحف سماوی کی صداقت، قرآنِ کریم کی حقانیت و ابدیت، عالم قبر و برزخ، یوم النشور یوم الحساب گردش کرتے ہیں۔ اگر یہ اپنی جگہ سے ہل جائے تو سارا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔ دین نہیں بچے گا، بات سمجھ میں آئی؟ مزید سمجھیے، جس طرح روشنی کے تمام مراتب عالم اسباب میں آفتاب پر ختم ہو جاتے ہیں، اسی طرح نبوت و رسالت کے تمام مراتب و کمالات کا سلسلہ بھی حضور رسالت پناہصلی اللہ علیہ وسلم کے وجودِ مسعود پر ختم ہو جاتا ہے۔ آپ کی نبوت و رسالت وہ مہر درخشاں ہے جس کے طلوع کے بعد اب کسی روشنی کی مطلق ضرورت نہیں رہی، سب روشنیاں اسی نور اعظمصلی اللہ علیہ وسلم میں مدغم ہو گئی ہیں جبھی تو مخبر صادقصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر آج موسیٰ علیہ السلام اس دنیا میں زندہ ہوتے تو انھیں بھی بجز میری اتباع کے چارۂ کار نہ ہوتا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو آخر زمانہ میں تشریف لائیں گے تو نبی کی حیثیت سے نہیں بلکہ ابوبکرؓ و عمرؓ کی طرح امتی اور خلیفہ کی حیثیت سے۔ حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ جو شخص بھی ختم نبوت کے تخت کی طرف میلی آنکھ سے دیکھے گا، ہم اس پر قہر الٰہی اور صدیق اکبرؓ کا انتقام بن کر ٹوٹ پڑیں گے۔"
"ساری باتوں کو چھوڑیے، لاہور والو! کوئی ہے!" اور یہ کہتے ہوئے اپنے سر سے ٹوپی اتار لی اور ٹوپی کو ہوا میں لہراتے ہوئے نہایت ہی جذبات انگیز الفاظ میں فرمایا، "جائو میری اس ٹوپی کو خواجہ ناظم الدین کے پاس لے جائو۔ میری یہ ٹوپی کبھی کسی کے سامنے نہیں جھکی، اسے خواجہ صاحب کے قدموں پر ڈال دو۔ اس سے کہو، ہم تیرے سیاسی حریف اور رقیب نہیں ہیں، ہم الیکشن نہیں لڑیں گے، تجھ سے اقتدار نہیں چھینیں گے۔ ہاں ہاں جائو اور میری ٹوپی اس کے قدموں میں ڈال کر یہ بھی کہو کہ اگر پاکستان کے بیت المال میں کوئی سؤر ہیں تو عطاء اللہ شاہ بخاری تیرے سؤروں کا وہ ریوڑ چرانے کے لیے بھی تیار ہے مگر شرط صرف یہ ہے کہ رسول اللہ فداہ ابی و امی کی ختم رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کا قانون بنا دے۔ کوئی آقاصلی اللہ علیہ وسلم کی توہین نہ کرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دستارِ ختم نبوت پر کوئی ہاتھ نہ ڈال سکے۔" شاہ جی بول رہے تھے اور مجمع بے قابو ہو رہا تھا۔ لوگ دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔ چشم فلک نے اس جیسا سماں بھی کم دیکھا ہوگا۔ عوام و خواص سب رو رہے تھے۔ شاہ جی پر خاص وجد کی سی کیفیت طاری تھی۔
ہم نے ہر دور میں تقدیسِ رسالت کے لیے
وقت کی تیز ہوائوں سے بغاوت کی ہے
توڑ کر سلسلہ رسم سیاست کا فسوں
اک فقط نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی ہے
ہم نے بدلا ہے زمانے میں محبت کا مزاج
ہم نے ہر دل کو نئی راہ و نوا بخشی ہے
مرحلے بند و سلاسل کے کئی طے کر کے
چہرۂ دار و رسن کو بھی ضیا بخشی ہے
"اگر لانبی بعدی کا مفہوم سلامت نہیں تو ایمان کے جزو کا کروڑواں حصہ بھی نہیں بچے گا۔ جڑ کو گھن لگے تو شاخ اور پتیاں سلامت نہیں رہتیں۔ عقیدے کو درخت سمجھو۔ جب تک جڑ مضبوط نہ ہو، درخت بار آور نہیں ہو سکتا۔ اب وہ ماں مر گئی ہے جو نبی جنا کرتی تھی۔ مشاطہ ازل نے آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی زلفوں میں وہ کنگھی ہی توڑ ڈالی جو زلف نبوت سنوارا کرتی تھی۔ اب زمانے کے یہ کنڈل یونہی رہیں گے لیکن کسی کنگھی کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ آئیے ہمارے ساتھ تعاون کیجئے، ایک دن ہماری بات پورے مسلمانوں کی آواز بن جائے گی، جسے حکومت کو بھی سننا پڑے گا۔ ہمیں اپنے خدا پر پورا یقین اور بھروسہ ہے کہ ہم بھی حالات بدل کر دکھا دیں گے۔ ایک وقت آئے گا کہ جو کچھ آج ہماری زبان پر ہے، پورے مسلمانوں کے دل کی آواز اور دھڑکن ہوگا۔ بس میری مانو! حضور نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کے دیوانے بن جائو۔ اس معاملے میں عقل کو جواب دے دو کہ یہ عقل کا نہیں، عشق کا معاملہ ہے۔ صحابۂ کرامؓ بھی صحیح معنوں میں دیوانگان محمدصلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ تبھی پوری دنیا پر چھا گئے۔"
"مسلمانو! ختم نبوت کے عقیدہ کو یوں سمجھو جیسے یہ ایک مرکزِ دائرہ ہے جس کے چاروں طرف توحید، رسالت، قیامت، ملائکہ کا وجود، صحف سماوی کی صداقت، قرآنِ کریم کی حقانیت و ابدیت، عالم قبر و برزخ، یوم النشور یوم الحساب گردش کرتے ہیں۔ اگر یہ اپنی جگہ سے ہل جائے تو سارا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔ دین نہیں بچے گا، بات سمجھ میں آئی؟ مزید سمجھیے، جس طرح روشنی کے تمام مراتب عالم اسباب میں آفتاب پر ختم ہو جاتے ہیں، اسی طرح نبوت و رسالت کے تمام مراتب و کمالات کا سلسلہ بھی حضور رسالت پناہصلی اللہ علیہ وسلم کے وجودِ مسعود پر ختم ہو جاتا ہے۔ آپ کی نبوت و رسالت وہ مہر درخشاں ہے جس کے طلوع کے بعد اب کسی روشنی کی مطلق ضرورت نہیں رہی، سب روشنیاں اسی نور اعظمصلی اللہ علیہ وسلم میں مدغم ہو گئی ہیں جبھی تو مخبر صادقصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر آج موسیٰ علیہ السلام اس دنیا میں زندہ ہوتے تو انھیں بھی بجز میری اتباع کے چارۂ کار نہ ہوتا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو آخر زمانہ میں تشریف لائیں گے تو نبی کی حیثیت سے نہیں بلکہ ابوبکرؓ و عمرؓ کی طرح امتی اور خلیفہ کی حیثیت سے۔ حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ جو شخص بھی ختم نبوت کے تخت کی طرف میلی آنکھ سے دیکھے گا، ہم اس پر قہر الٰہی اور صدیق اکبرؓ کا انتقام بن کر ٹوٹ پڑیں گے۔"
"ساری باتوں کو چھوڑیے، لاہور والو! کوئی ہے!" اور یہ کہتے ہوئے اپنے سر سے ٹوپی اتار لی اور ٹوپی کو ہوا میں لہراتے ہوئے نہایت ہی جذبات انگیز الفاظ میں فرمایا، "جائو میری اس ٹوپی کو خواجہ ناظم الدین کے پاس لے جائو۔ میری یہ ٹوپی کبھی کسی کے سامنے نہیں جھکی، اسے خواجہ صاحب کے قدموں پر ڈال دو۔ اس سے کہو، ہم تیرے سیاسی حریف اور رقیب نہیں ہیں، ہم الیکشن نہیں لڑیں گے، تجھ سے اقتدار نہیں چھینیں گے۔ ہاں ہاں جائو اور میری ٹوپی اس کے قدموں میں ڈال کر یہ بھی کہو کہ اگر پاکستان کے بیت المال میں کوئی سؤر ہیں تو عطاء اللہ شاہ بخاری تیرے سؤروں کا وہ ریوڑ چرانے کے لیے بھی تیار ہے مگر شرط صرف یہ ہے کہ رسول اللہ فداہ ابی و امی کی ختم رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کا قانون بنا دے۔ کوئی آقاصلی اللہ علیہ وسلم کی توہین نہ کرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دستارِ ختم نبوت پر کوئی ہاتھ نہ ڈال سکے۔" شاہ جی بول رہے تھے اور مجمع بے قابو ہو رہا تھا۔ لوگ دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔ چشم فلک نے اس جیسا سماں بھی کم دیکھا ہوگا۔ عوام و خواص سب رو رہے تھے۔ شاہ جی پر خاص وجد کی سی کیفیت طاری تھی۔
ہم نے ہر دور میں تقدیسِ رسالت کے لیے
وقت کی تیز ہوائوں سے بغاوت کی ہے
توڑ کر سلسلہ رسم سیاست کا فسوں
اک فقط نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی ہے
ہم نے بدلا ہے زمانے میں محبت کا مزاج
ہم نے ہر دل کو نئی راہ و نوا بخشی ہے
مرحلے بند و سلاسل کے کئی طے کر کے
چہرۂ دار و رسن کو بھی ضیا بخشی ہے
کمرہء عدالت :
امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری (علیہ الرحمتہ) کو عدالت میں طلب کر لیا۔ حکومت نے بیان داخل کرنے کے لیے امیر شریعتؒ کو سکھر جیل سے لاہور سنٹرل جیل منتقل کر دیا۔ پیشی کی تاریخ پر امیر شریعتؒ اور ان کے قیدی رفقا کو سخت پہرے میں عدالت میں لایا گیا۔
عدالتی ہر کارے نے آواز لگائی: سرکار بنام عطاء اللہ شاہ بخاری وغیرہ وغیرہ
اب، اسیر ختم نبوت امیر شریعت، پورے قلندرانہ جاہ و جلال اور ایمانی جرأت و وقار کے ساتھ کمرۂ عدالت میں داخل ہوئے۔ سرفروشانِ احرار نے پورے ہائی کورٹ کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا۔
عدالت کے دروازے پر ہزاروں فدائین ختم نبوت اور شمع ناموس رسالتصلی اللہ علیہ وسلم کے پروانے نعرہ زن تھے۔ نعرۂ تکبیر، اللہ اکبر، تاج و تختِ ختم نبوتؐ زندہ باد، مرزائیت مردہ باد! امیر شریعتؒ نے عدالت کے دروازے پر کھڑے ہو کر ہتھکڑیاں فضا میں لہرائیں اور ہاتھ سے اشارہ کیا۔
مجمع وارفتگی سے پوچھ رہا تھا:
کہیے کیا حکم ہے؟ دیوانہ بنوں یا نہ بنوں؟
حکم ہوا: خاموش!
تمام مجمع ساکت و جامد!
امیر شریعتؒ عدالت میں داخل ہو گئے۔
جسٹس منیر بغض و حسد سے بھرا ہوا، غصے سے لال پیلا، گردن تنی ہوئی اور تکبر و غرور کا پیکر ناہنجار بنا کرسی پر بیٹھا تھا۔
مردِ مومن کے چہرۂ انور پر نگاہ پڑی تو اس کی آنکھیں جھک گئیں۔
جسٹس منیر دوسری مرتبہ آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہ کر سکا۔
کارروائی شروع ہوئی۔
امیر شریعتؒ نے اپنا تحریری بیان عدالت میں پیش کیا۔ جسٹس منیر نے ایک نظر بیان کو دیکھا (جسے اس نے "منیر انکوائری رپورٹ" میں شامل نہیں کیا) اور پھر اپنے مخصوص چبھتے ہوئے انداز میں سوالات کا آغاز کر دیا۔
جسٹس منیر: ہندوستان میں اس وقت کتنے مسلمان ہیں؟
امیر شریعتؒ: سوال غیر متعلق ہے، مجھ سے پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میں پوچھیں۔
جسٹس منیر: (تمسخر آمیز لہجے میں) ہندوستان اور پاکستان میں جنگ چھڑ جائے تو ہندوستان کے مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟
امیر شریعتؒ: ہندوستان میں علما موجود ہیں، وہ بتائیں گے۔
جسٹس منیر: (طنز کرتے ہوئے) آپ بتا دیں؟
امیر شریعتؒ: پاکستان کے بارے میں پوچھیں، یہاں کے مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟
جسٹس منیر: مسلمان کی تعریف کیا ہے؟
امیر شریعتؒ: اسلام میں داخل ہونے اور مسلمان کہلانے کے لیے صرف کلمہ شہادت کا اقرار و اعلان ہی کافی ہے۔ لیکن اسلام سے خارج ہونے کے ہزاروں روزن ہیں۔ ضروریاتِ دین میں کسی ایک کا انکار کفر کے ماسوا کچھ نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفات عالیہ میں سے کسی ایک کو بھی انسانوں میں مانا تو مشرک، قرآن کریم کی کسی ایک آیت یا جملہ کا انکار کیا تو کافر، اور نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کے منصب ختم نبوت کے بعد کسی انسان کو کسی بھی حیثیت میں نبی مانا تو مرتد۔
جسٹس منیر: (قادیانی وکیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) ان کے بارے میں کیا خیال ہے؟
امیر شریعتؒ: خیال نہیں عقیدہ۔ جو ان کے بڑوں کے بارے میں ہے۔
مرزائی وکیل: نبی کی تعریف کیا ہے؟
امیر شریعتؒ: میرے نزدیک اسے کم از کم ایک شریف آدمی ہونا چاہیے۔
جسٹس منیر: (بدتمیزی کے انداز میں) آپ نے مرزا قادیانی کو کافر کہا ہے؟
امیر شریعتؒ: میں اس سوال کا آرزو مند تھا۔ کوئی بیس برس ادھر کی بات ہے، یہی عدالت تھی جہاں آپ بیٹھے ہیں، یہاں چیف جسٹس، مسٹر جسٹس ڈگلس ینگ تھے۔ اور جہاں مسٹر کیانی بیٹھے ہیں، یہاں رائے بہادر جسٹس رام لال تھے۔ یہی سوال انھوں نے مجھ سے پوچھا تھا۔ وہی جواب آج دہراتا ہوں۔ میں نے ایک بار نہیں ہزاروں مرتبہ، مرزا کو کافر کہا ہے، کافر کہتا ہوں اور جب تک زندہ ہوں گا کافر کہتا رہوں گا۔ یہ میرا ایمان اور عقیدہ ہے اور اسی پر مرنا چاہتا ہوں۔ مرزا قادیانی اور اس کی ذریت کافر و مرتد ہے۔ مسیلمہ کذاب اور ایسے ہی دیگر جھوٹوں کو دعویٰ نبوت کے جرم میں قتل کیا گیا۔
جسٹس منیر: (غصے سے بے قابو ہو کر، دانت پیستے ہوئے) اگر غلام احمد قادیانی آپ کے سامنے یہ دعویٰ کرتا تو آپ اسے قتل کر دیتے؟
امیر شریعتؒ: میرے سامنے اب کوئی دعویٰ کر کے دیکھ لے!
حاضرین عدالت: نعرۂ تکبیر، اللہ اکبر، ختم نبوتؐ زندہ باد، مرزائیت مردہ بادکمرۂ عدالت لرز گیا۔
جسٹس منیر: (بوکھلا کر) توہین عدالت!
امیر شریعتؒ: (جلال میں آ کر) توہین رسالت !
جسٹس منیر : دم بخود، خاموش، مبہوت، حواس باختہ، چہرہ زرد، ہوش عنقا پیشانی سے پسینہ پونچھنے لگا۔
عدالت: امیر شریعت کی جرأت ایمانی اور جذبۂ حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ کر سکتے میں آ چکی تھی۔
امیر شریعتؒ: (گرج دار آواز میں) کچھ اور؟
جسٹس منیر: (پریشانی میں بڑبڑاتے ہوئے) میرا خیال ہے ہمیں مزید کچھ بھی نہیں پوچھنا! عدالت برخواست ہو جاتی ہے۔
؎ وہ صداقت جس کی بیباکی تھی حسرت آفریں
عدالتی ہر کارے نے آواز لگائی: سرکار بنام عطاء اللہ شاہ بخاری وغیرہ وغیرہ
اب، اسیر ختم نبوت امیر شریعت، پورے قلندرانہ جاہ و جلال اور ایمانی جرأت و وقار کے ساتھ کمرۂ عدالت میں داخل ہوئے۔ سرفروشانِ احرار نے پورے ہائی کورٹ کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا۔
عدالت کے دروازے پر ہزاروں فدائین ختم نبوت اور شمع ناموس رسالتصلی اللہ علیہ وسلم کے پروانے نعرہ زن تھے۔ نعرۂ تکبیر، اللہ اکبر، تاج و تختِ ختم نبوتؐ زندہ باد، مرزائیت مردہ باد! امیر شریعتؒ نے عدالت کے دروازے پر کھڑے ہو کر ہتھکڑیاں فضا میں لہرائیں اور ہاتھ سے اشارہ کیا۔
مجمع وارفتگی سے پوچھ رہا تھا:
کہیے کیا حکم ہے؟ دیوانہ بنوں یا نہ بنوں؟
حکم ہوا: خاموش!
تمام مجمع ساکت و جامد!
امیر شریعتؒ عدالت میں داخل ہو گئے۔
جسٹس منیر بغض و حسد سے بھرا ہوا، غصے سے لال پیلا، گردن تنی ہوئی اور تکبر و غرور کا پیکر ناہنجار بنا کرسی پر بیٹھا تھا۔
مردِ مومن کے چہرۂ انور پر نگاہ پڑی تو اس کی آنکھیں جھک گئیں۔
جسٹس منیر دوسری مرتبہ آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہ کر سکا۔
کارروائی شروع ہوئی۔
امیر شریعتؒ نے اپنا تحریری بیان عدالت میں پیش کیا۔ جسٹس منیر نے ایک نظر بیان کو دیکھا (جسے اس نے "منیر انکوائری رپورٹ" میں شامل نہیں کیا) اور پھر اپنے مخصوص چبھتے ہوئے انداز میں سوالات کا آغاز کر دیا۔
جسٹس منیر: ہندوستان میں اس وقت کتنے مسلمان ہیں؟
امیر شریعتؒ: سوال غیر متعلق ہے، مجھ سے پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میں پوچھیں۔
جسٹس منیر: (تمسخر آمیز لہجے میں) ہندوستان اور پاکستان میں جنگ چھڑ جائے تو ہندوستان کے مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟
امیر شریعتؒ: ہندوستان میں علما موجود ہیں، وہ بتائیں گے۔
جسٹس منیر: (طنز کرتے ہوئے) آپ بتا دیں؟
امیر شریعتؒ: پاکستان کے بارے میں پوچھیں، یہاں کے مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟
جسٹس منیر: مسلمان کی تعریف کیا ہے؟
امیر شریعتؒ: اسلام میں داخل ہونے اور مسلمان کہلانے کے لیے صرف کلمہ شہادت کا اقرار و اعلان ہی کافی ہے۔ لیکن اسلام سے خارج ہونے کے ہزاروں روزن ہیں۔ ضروریاتِ دین میں کسی ایک کا انکار کفر کے ماسوا کچھ نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفات عالیہ میں سے کسی ایک کو بھی انسانوں میں مانا تو مشرک، قرآن کریم کی کسی ایک آیت یا جملہ کا انکار کیا تو کافر، اور نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کے منصب ختم نبوت کے بعد کسی انسان کو کسی بھی حیثیت میں نبی مانا تو مرتد۔
جسٹس منیر: (قادیانی وکیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) ان کے بارے میں کیا خیال ہے؟
امیر شریعتؒ: خیال نہیں عقیدہ۔ جو ان کے بڑوں کے بارے میں ہے۔
مرزائی وکیل: نبی کی تعریف کیا ہے؟
امیر شریعتؒ: میرے نزدیک اسے کم از کم ایک شریف آدمی ہونا چاہیے۔
جسٹس منیر: (بدتمیزی کے انداز میں) آپ نے مرزا قادیانی کو کافر کہا ہے؟
امیر شریعتؒ: میں اس سوال کا آرزو مند تھا۔ کوئی بیس برس ادھر کی بات ہے، یہی عدالت تھی جہاں آپ بیٹھے ہیں، یہاں چیف جسٹس، مسٹر جسٹس ڈگلس ینگ تھے۔ اور جہاں مسٹر کیانی بیٹھے ہیں، یہاں رائے بہادر جسٹس رام لال تھے۔ یہی سوال انھوں نے مجھ سے پوچھا تھا۔ وہی جواب آج دہراتا ہوں۔ میں نے ایک بار نہیں ہزاروں مرتبہ، مرزا کو کافر کہا ہے، کافر کہتا ہوں اور جب تک زندہ ہوں گا کافر کہتا رہوں گا۔ یہ میرا ایمان اور عقیدہ ہے اور اسی پر مرنا چاہتا ہوں۔ مرزا قادیانی اور اس کی ذریت کافر و مرتد ہے۔ مسیلمہ کذاب اور ایسے ہی دیگر جھوٹوں کو دعویٰ نبوت کے جرم میں قتل کیا گیا۔
جسٹس منیر: (غصے سے بے قابو ہو کر، دانت پیستے ہوئے) اگر غلام احمد قادیانی آپ کے سامنے یہ دعویٰ کرتا تو آپ اسے قتل کر دیتے؟
امیر شریعتؒ: میرے سامنے اب کوئی دعویٰ کر کے دیکھ لے!
حاضرین عدالت: نعرۂ تکبیر، اللہ اکبر، ختم نبوتؐ زندہ باد، مرزائیت مردہ بادکمرۂ عدالت لرز گیا۔
جسٹس منیر: (بوکھلا کر) توہین عدالت!
امیر شریعتؒ: (جلال میں آ کر) توہین رسالت !
جسٹس منیر : دم بخود، خاموش، مبہوت، حواس باختہ، چہرہ زرد، ہوش عنقا پیشانی سے پسینہ پونچھنے لگا۔
عدالت: امیر شریعت کی جرأت ایمانی اور جذبۂ حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ کر سکتے میں آ چکی تھی۔
امیر شریعتؒ: (گرج دار آواز میں) کچھ اور؟
جسٹس منیر: (پریشانی میں بڑبڑاتے ہوئے) میرا خیال ہے ہمیں مزید کچھ بھی نہیں پوچھنا! عدالت برخواست ہو جاتی ہے۔
؎ وہ صداقت جس کی بیباکی تھی حسرت آفریں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں