گذشتہ کافی دنوں سے کچھ لکھنے کو دل چاہ رہا تھا مگر دماغ کشمکش اور خانہ جنگی کا شکار تھا ۔سوچ رہا تھا کے کیا کیا لکھوں اور کس کس ایشو پر ۔ کیا پاکستان لوٹنے والوں پر۔ حالیہ سیاسی بحران پر ۔ ملکی حالت زار پر۔ فاٹا کے انضمام پر حکومتی سستی پر۔ عالمی دنیا میں مسلم نسل کشی پر۔ ملکی خانہ جنگی پر ۔ پاکستان میں بڑھتی فرقہ وارانہ کشیدگی پر اور حکومت وقت کے غیر سنجیدہ رویے پر۔ کسی قصور شہر کی ننھی زینب کی عصمت دری پر یا کسی عاصمہ کی عزت کی پامالی پر۔گزشتہ چند مہینوں میں قصوربھر میں سینکڑوں بچوں کے ساتھ ہونے والی بدفعلیوں پر یا پاکستان میں آئے روز ہونے والی عزتوں کی پامالی پر۔ سرفراز شاہ کے قاتلوں کی معافی پر یا گزشتہ دنوں قبائل کا خوبرو نوجوان جس کی تصویر پر نظر پڑتے ہی خیال آتا ہے کے کتنا حسین جوان ہے نقیب اللہ محسود کے ماوراٸے عدالت قتل پر۔ پولیس گردی پر یا وردی کے نام پر ہونے والے جعلی پولیس مقابلوں پر ۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مجرموں کو سیاسی پناہ پر۔پاکستان اور پاکستانی عوام کی معاشی اور معاشرتی قتل پر ۔ کسانوں اور بالخصوص گنے کے کاشتکاروں پر پنجاب حکومت کی طرف سے ہونے والے استحصال پر۔ پاکستان میں جمہوریت کے نام پر لگائے گئے زخموں پر یا آمریت سے ملنے والی بد امنی اور دہشتگردی پر ۔جھنگ کی بدترین سیاست پر یا شہری مسائل پر۔ یا ملکی حالیہ سیاسی بحران پر۔ لکھنے کو عنوان تو بے شمار تھے اور بیان کرنے کو الفاظ بھی بہت مگر سوائے لفظوں کے اور حالات پر رونے کے ہمارے اختیار میں کچھ بھی نہیں۔
جی ہاں صاحب جس معاشرے میں سرفراز شاہ کے قاتلوں کو صدارتی معافی مل جائے جس معاشرے میں قوم کی بیٹی عافیہ کا سودا ہو جائے جس معاشرے میں ریمنڈ ڈیوس جیسے اغیار خون بہا کر دندناتے ہوئے چلتے بنیں۔ جہاں انصاف ٹکوں میں بکتا ہو اور جہاں کا منصف مجرم سے پوچھ کر لکھتا ہو ۔ اور جس معاشرے میں انسان نما حیوان اور درندے آزاد ہوں وہاں جناب روز ہی کسی کی زینب اور کسی کی عاصمہ اور کسی کی جوان بیٹی ہوس کا شکار ہوتی ہے اور انکی سانسیں بھی چھین لی جاتی ہیں اور انصاف کے نام پر فقط روز سیاسی لیڈران اور حکومتی نمائندوں کی طرف سے فوٹو سیشن تک محدود ہو اور انکے مجرم دندناتے پھرتے ہوں جہاں کا نظام عدل کئی ٹکڑوں میں بٹا ہو وہاں نقیب اللہ محسود اور اس جیسے کئی مزدور لوگ جوان بیٹے ، شوہر ، بھائی اور باپ بچے ماورائے آئین اور ماورائے عدالت مار دیے جاتے جو کے ہمارے جوڈیشری سسٹم کے کردار پر سوالیہ نشان چھوڑ جاتے ہیں ۔ ایسے میں حضرت علیؓ کا فرمان یاد آ رہا ہے کہ معاشرہ کفر سے چل سکتا ہے مگر ظلم سے نہیں۔
ایسے دلگرفتہ حالات میں اے جسٹس حضرات تم تو حضرت علیؓ کی مسند کے وارث ہونے کے دعویدار ہو لیکن سپریم کورٹ آف پاکستان کی عالیشان عمارت کے داخلی دروازے کے عین اوپر لٹکتا بڑا سا ترازو چیف جسٹس آف پاکستان سے چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے145145مٹ جائیگی مخلوق تو انصاف کرو گے منصف ہو تو پھر حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے146146۔کیونکہ یہاں انصاف کی فراہمی کا سسٹم اتنا تیز ہے کہ پس زندان کے قیدی انصاف کی راہ تکتے تکتے بالآخر دنیا فانی سے کوچ کر جاتے ہیں ورثا اس کی میت کو دفنا کر آتے ہیں اور پھر ایک دن ان پر قیامت توڑی جاتی ہے کہ فلاں بن فلاں کو عدالت عالیہ ٢٠ برس بعد انصاف مہیا کرتے ہوئے بے گناہ قرار دیتی ہے ایسے میں انکے گھر ایک دفعہ پھر قیامت صغری کا سماں ہوتا ہے۔ اور جو زندہ قیدی ہوں انکے بالوں میں سفیدی انکی زندگی کے قیمتی برس ضائع ہو جانے پر نوحہ کناں ہوتی ہے۔اور مراعات کے نام پر عیش کرنے والے منصف چین کی بانسری بجاتے ہیں۔
جہاں کرسی اور اقتدار کا لالچ ملک دولخت کروا دے اور اقتدار کی ہوس نا اہلی کے بعد اپنی کرسی اپنے بھائی کو بھی نہ دینے دے اور نظر انتخاب بیمار بیوی پرجا ٹھہرے ۔ اور جہاں اقتدار کا نشہ بلاول زرداری سے بلاول بھٹو بننے پر مجبور کر دے اور جہاں سیاست کا نشہ عالم کو گداگری سکھا دے۔ جہاں دستور ساز ادارے کے معزز ممبران پر شراب اور کباب کے شرمناک الزامات لگتے ہوں۔ جہاں روز قومی غیرت کے جنازے نکلتے ہوں تو ایسے میں ان حالات کی کوکھ سے نت نئے حادثات جنم لیتے ہیں۔ عوام الناس کو شاہ زیب قتل کیس بھی یاد ہو گا۔ آپ کو مجید اچکزئی تو یاد ہو گا وہی جس نے دن دیہاڑے ٹریفک اہلکار کچل دیا تھا یاد آیا۔ وہی جس کو عدالت عالیہ سے ضمانت پر رہا کر دیا گیا کیا آج تک کسی بڑے مجرم کو سزا دی گئی۔ ارے آپ کو پنجاب اور سندھ میں بالخصوص اور پاکستان پورے میں بالعموم روز ہونے والے پولیس مقابلے بھی یاد ہونگے جس میں سینکڑوں افراد کو ماوراٸے عدالت قتل کیا گیا مگر کہیں سے کوئی صدائے احتجاج بلند نہ ہوئی۔اور ایسے کام ریاست کو دن بدن کمزور کر رہے ہیں اور اس سے قبل پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی خاموشی بھی قابل مذمت رہی۔ محض سوشل میڈیا کے غیور لوگوں نے ان مظالم پر احتجاجاً آواز بلند کی۔ مگر اسے کسی نے نا سنا کسی نے کہا فلاں کا مرا ہے کسی نے کہاں فلاں کا مگر یہ کسی نے نا سوچا کہ مرا تو پاکستانی ہے۔اور یاد رکھو اگر اب بھی نہیں بولو گے تو پھر کل کسی اور کا نقیب مارا جائےگا اور دہشتگرد ہونے کا الزام سجائے قبر میں اتر جائے گا لیکن ہمارا سوال ہے اگر نقیب اللہ محسود بے گناہ قرار دیا جاتا ہے جو کہ وہ یقیناً بے گناہ ہی تھا تو کیا ناحق قتل کے بدلے میں راؤ انوار کو قانون پاکستان کے تحت سزا دی جائیگی؟ یقیناً نہیں دی جائیگی اور اس درندہ صفت انسان کو لوگوں کے قتل عام کیلئے کھلا چھوڑ دیا جائیگا۔ اور ہم سب پھر کسی نئے نقیب کے لاشے کے منتظر ہونگے۔
لیکن دیکھا جائے تو نقیب قصور وار تھا کیونکہ اس حسین نوجوان کا سب سے بڑا جرم محسود قبیلہ میں پیدا ہونا تھا جسے اس کی بدنصیبی سمجھ لیں یا قدرت کی ستم ظریفی کا نام دیں جناب یہ تھا نقیب کا جرم اور دوسرا جرم امن ، رزق اور پرسکون زندگی کی تلاش میں کراچی اپنی مقتل گاہ کی طرف ہجرت کرنا تھا ۔حیرت در حیرت ہے نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل پر نا تو توہین عدالت کی آواز کہیں سے بلند ہوئی اور نا ہی فیک انکاؤنٹر پر حکومتی رٹ چیلنج ہوئی لیکن اگر راؤ انوار جیسے بھیڑیوں کو لگام نہ دی گئی تو نہ جانے کتنے چراغ گل ہونگے اور بچے یتیم اور بیویاں بیوہ اور ماؤں کی گودیں اجڑتی رہیں گیں۔آپ فقط پچھلے دو سال کی رپورٹ اٹھا کر دیکھ لیں کے کراچی کے سینکڑوں گھروں کے چراغ راؤ انوار درندے نے گل کر دیے ہیں۔ لیکن اس سیاہ ظلمتوں کی طویل رات میں راؤ انوار جیسے گماشتے صرف مہرے ہیں ان سے بڑے مجرم تو وہ کرپٹ سیاسی حکومتی افراد ہیں جو اپنے اقتدار کی طوالت کیلئے راؤ انوار جیسے آفیسر پالتے ہیں اور جن کے ڈیرے پر روز راؤ جیسے سلامی دینے جاتے ہیں ۔ جو ملکی پرچم جلاتے ہیں افواج پاکستان کے خلاف نعرے لگوانے والوں سے وزارتوں کی بندر بانٹ کرتے ہیں جو کھاتے تو پاکستان کا ہیں مگر ایجنٹی بھارت ، امریکہ کی کرتے ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ راؤ جیسے لوگ ایسے ناسوروں کا قلع قمع ہوتا مگر یہاں صرف غریب عوام کا ہی استحصال کیا جاتا ہے۔ اب جب کہ نقیب محسود کے نان جوڈیشری قتل پر بنائی جانے والی تحقیقاتی کمیٹی نے نقیب شہید کو بے گناہ قرار دے دیا ہے اور اس کے قتل کو جعلی انکاؤنٹر قرار دیتے ہوئے راؤ انوار کی معطلی کی سفارش کرتے ہوئے اس کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا مطالبہ بھی کر دیا ہے اور ساتھ ساتھ دیگر جعلی مقابلوں کی تحقیقات اور کرپشن کی تحقیقات کروانے کی سفارش بھی اعلی حکام کو کر دی ہے۔ اور آئی جی سندھ نے راؤ کو عہدے سے برطرف کر دیا ہے اور اس کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کیلئے داخلہ کو خط لکھ دیا ہے۔اور اس کے ساتھی ایک اور آفیسر کو بھی معطل کر دیا ہے اور مزید تحقیقات کا حکم دے دیا ہے دوسری جانب چیف جسٹس نے بھی از خود نوٹس لیتے ہوٸے راؤ کے ایکسٹرا جوڈیشری کلنگ کا نوٹس لے لیا گیا ہےیوں راؤ کے گرد گھیرا تنگ کر دیا گیا ہے ۔ مگر یہ نا ہو کے جیسے موصوف کو کچھ برس قبل بھی برطرف کیا گیا تھا مگر بعد میں پیپلز پارٹی کی حکومت آنے پر موصوف کو عہدے پر ترقی دیتے ہوئےبحال کر دیا گیا اور پولیس گردی کیلئے آزاد چھوڑ دیا گیا اب پھر ویسا نہ ہو اور ایسے وقت میں پوری قوم کا مطالبہ ہے اعلی حکام سے سندھ حکومت اور پاکستانی حکومت وقت سے اور بالخصوص عدالت عالیہ سے کے قانون کے تقاضے پورے کرتے ہوئے راؤ انوار اور اس کی پوری ٹیم کو پاکستانی قوانین کے مطابق کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔
ہماری پاکستانی حکومت اور پاکستان کے سلامتی اداروں سے اپیل ہے کہ خدارا ملکی مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے ملکی جوڈیشری سسٹم کے ہاتھ مضبوط کریں اور پاکستان بھر میں لاپتہ افراد کو بازیاب کروا کر انکو عدالتوں میں پیش کریں اور اگر مجرم ہیں تو مجرموں کو کڑی سے کڑی عدالتی اور آئینی سزا سر عام دیں یقین کریں اس ملک کی ٢٢ کروڑ عوام آپکے ساتھ ہے اور وطن عزیز کی سالمیت کیلئے ہر لمحہ آپکے ساتھ کھڑی ہے مگر لا پتہ کیے جانے اور ماورائے عدالت قتل کیے جانے جیسے اقدامات لوگوں کے جذبات مشتعل اور شدید ذہنی و جسمانی اضطراب میں لا رہے ہیں۔ اور عام لوگوں کا اعتماد ہمارے عدالتی سسٹم سے اٹھتا چلا جا رہا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے آپ زینب اور اس جیسی دیگر تمام بچٕیوں کے قاتلوں کو گرفتار کریں اور ایسے مجرموں کو قانون کے مطابق سزا سناتے ہوئے سر عام سزا دیں تاکہ آئندہ کسی کی زینب اس ظلم کا شکار نہ ہو اور نا کسی نقیب کے معصوم بچوں کو یتیمی اور بیوی کو بیوہ ہو کر خون کے آنسو رونا پڑیں۔
ایسے میں ہم قابل تحسین سمجھتے ہیں عمران خان کو اور اسکی جماعت کو جس نے کوٸی مانے یا نہ مانے اس ملک کی قوم کو سیاسی شعور دیا ہےا اور انکے حقوق باور کرواتے ہوٸے حقیقی بڑی اپوزیشن کا کردار نبھایا ہے اور ملکی خزانہ بے دردی سے لوٹنے والوں کرپٹ نااہل اور سرٹیفاٸڈ چوروں کے اصل اور گھناٶنے چہرے بے نقاب کیے ہیں آج ایسے وقت پر بھی ہم عمران خان اور تحریک انصاف بالخصوص مراد سعید کو سلام پیش کرتے ہیں جس نے نقیب کے نا حق قتل پر آواز بلند کی ہے اور شفاف عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے یقیناً نقیب کی نان جوڈیشری کلنگ پر پوری پاکستانی عوام ضطراب کا شکار ہے اور درد میں شریک ہے۔
مجھ کو اس ظالم کا طرفدار نہیں لکھ سکتے
کم سے کم وہ مجھے لاچار نہیں لکھ سکتے
چارہ گری کے لیے بول رہا ہوں جو سچ
اس کو اس دیس کے اخبار نہیں لکھ سکتے۔
جی ہاں صاحب جس معاشرے میں سرفراز شاہ کے قاتلوں کو صدارتی معافی مل جائے جس معاشرے میں قوم کی بیٹی عافیہ کا سودا ہو جائے جس معاشرے میں ریمنڈ ڈیوس جیسے اغیار خون بہا کر دندناتے ہوئے چلتے بنیں۔ جہاں انصاف ٹکوں میں بکتا ہو اور جہاں کا منصف مجرم سے پوچھ کر لکھتا ہو ۔ اور جس معاشرے میں انسان نما حیوان اور درندے آزاد ہوں وہاں جناب روز ہی کسی کی زینب اور کسی کی عاصمہ اور کسی کی جوان بیٹی ہوس کا شکار ہوتی ہے اور انکی سانسیں بھی چھین لی جاتی ہیں اور انصاف کے نام پر فقط روز سیاسی لیڈران اور حکومتی نمائندوں کی طرف سے فوٹو سیشن تک محدود ہو اور انکے مجرم دندناتے پھرتے ہوں جہاں کا نظام عدل کئی ٹکڑوں میں بٹا ہو وہاں نقیب اللہ محسود اور اس جیسے کئی مزدور لوگ جوان بیٹے ، شوہر ، بھائی اور باپ بچے ماورائے آئین اور ماورائے عدالت مار دیے جاتے جو کے ہمارے جوڈیشری سسٹم کے کردار پر سوالیہ نشان چھوڑ جاتے ہیں ۔ ایسے میں حضرت علیؓ کا فرمان یاد آ رہا ہے کہ معاشرہ کفر سے چل سکتا ہے مگر ظلم سے نہیں۔
ایسے دلگرفتہ حالات میں اے جسٹس حضرات تم تو حضرت علیؓ کی مسند کے وارث ہونے کے دعویدار ہو لیکن سپریم کورٹ آف پاکستان کی عالیشان عمارت کے داخلی دروازے کے عین اوپر لٹکتا بڑا سا ترازو چیف جسٹس آف پاکستان سے چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے145145مٹ جائیگی مخلوق تو انصاف کرو گے منصف ہو تو پھر حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے146146۔کیونکہ یہاں انصاف کی فراہمی کا سسٹم اتنا تیز ہے کہ پس زندان کے قیدی انصاف کی راہ تکتے تکتے بالآخر دنیا فانی سے کوچ کر جاتے ہیں ورثا اس کی میت کو دفنا کر آتے ہیں اور پھر ایک دن ان پر قیامت توڑی جاتی ہے کہ فلاں بن فلاں کو عدالت عالیہ ٢٠ برس بعد انصاف مہیا کرتے ہوئے بے گناہ قرار دیتی ہے ایسے میں انکے گھر ایک دفعہ پھر قیامت صغری کا سماں ہوتا ہے۔ اور جو زندہ قیدی ہوں انکے بالوں میں سفیدی انکی زندگی کے قیمتی برس ضائع ہو جانے پر نوحہ کناں ہوتی ہے۔اور مراعات کے نام پر عیش کرنے والے منصف چین کی بانسری بجاتے ہیں۔
جہاں کرسی اور اقتدار کا لالچ ملک دولخت کروا دے اور اقتدار کی ہوس نا اہلی کے بعد اپنی کرسی اپنے بھائی کو بھی نہ دینے دے اور نظر انتخاب بیمار بیوی پرجا ٹھہرے ۔ اور جہاں اقتدار کا نشہ بلاول زرداری سے بلاول بھٹو بننے پر مجبور کر دے اور جہاں سیاست کا نشہ عالم کو گداگری سکھا دے۔ جہاں دستور ساز ادارے کے معزز ممبران پر شراب اور کباب کے شرمناک الزامات لگتے ہوں۔ جہاں روز قومی غیرت کے جنازے نکلتے ہوں تو ایسے میں ان حالات کی کوکھ سے نت نئے حادثات جنم لیتے ہیں۔ عوام الناس کو شاہ زیب قتل کیس بھی یاد ہو گا۔ آپ کو مجید اچکزئی تو یاد ہو گا وہی جس نے دن دیہاڑے ٹریفک اہلکار کچل دیا تھا یاد آیا۔ وہی جس کو عدالت عالیہ سے ضمانت پر رہا کر دیا گیا کیا آج تک کسی بڑے مجرم کو سزا دی گئی۔ ارے آپ کو پنجاب اور سندھ میں بالخصوص اور پاکستان پورے میں بالعموم روز ہونے والے پولیس مقابلے بھی یاد ہونگے جس میں سینکڑوں افراد کو ماوراٸے عدالت قتل کیا گیا مگر کہیں سے کوئی صدائے احتجاج بلند نہ ہوئی۔اور ایسے کام ریاست کو دن بدن کمزور کر رہے ہیں اور اس سے قبل پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی خاموشی بھی قابل مذمت رہی۔ محض سوشل میڈیا کے غیور لوگوں نے ان مظالم پر احتجاجاً آواز بلند کی۔ مگر اسے کسی نے نا سنا کسی نے کہا فلاں کا مرا ہے کسی نے کہاں فلاں کا مگر یہ کسی نے نا سوچا کہ مرا تو پاکستانی ہے۔اور یاد رکھو اگر اب بھی نہیں بولو گے تو پھر کل کسی اور کا نقیب مارا جائےگا اور دہشتگرد ہونے کا الزام سجائے قبر میں اتر جائے گا لیکن ہمارا سوال ہے اگر نقیب اللہ محسود بے گناہ قرار دیا جاتا ہے جو کہ وہ یقیناً بے گناہ ہی تھا تو کیا ناحق قتل کے بدلے میں راؤ انوار کو قانون پاکستان کے تحت سزا دی جائیگی؟ یقیناً نہیں دی جائیگی اور اس درندہ صفت انسان کو لوگوں کے قتل عام کیلئے کھلا چھوڑ دیا جائیگا۔ اور ہم سب پھر کسی نئے نقیب کے لاشے کے منتظر ہونگے۔
لیکن دیکھا جائے تو نقیب قصور وار تھا کیونکہ اس حسین نوجوان کا سب سے بڑا جرم محسود قبیلہ میں پیدا ہونا تھا جسے اس کی بدنصیبی سمجھ لیں یا قدرت کی ستم ظریفی کا نام دیں جناب یہ تھا نقیب کا جرم اور دوسرا جرم امن ، رزق اور پرسکون زندگی کی تلاش میں کراچی اپنی مقتل گاہ کی طرف ہجرت کرنا تھا ۔حیرت در حیرت ہے نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل پر نا تو توہین عدالت کی آواز کہیں سے بلند ہوئی اور نا ہی فیک انکاؤنٹر پر حکومتی رٹ چیلنج ہوئی لیکن اگر راؤ انوار جیسے بھیڑیوں کو لگام نہ دی گئی تو نہ جانے کتنے چراغ گل ہونگے اور بچے یتیم اور بیویاں بیوہ اور ماؤں کی گودیں اجڑتی رہیں گیں۔آپ فقط پچھلے دو سال کی رپورٹ اٹھا کر دیکھ لیں کے کراچی کے سینکڑوں گھروں کے چراغ راؤ انوار درندے نے گل کر دیے ہیں۔ لیکن اس سیاہ ظلمتوں کی طویل رات میں راؤ انوار جیسے گماشتے صرف مہرے ہیں ان سے بڑے مجرم تو وہ کرپٹ سیاسی حکومتی افراد ہیں جو اپنے اقتدار کی طوالت کیلئے راؤ انوار جیسے آفیسر پالتے ہیں اور جن کے ڈیرے پر روز راؤ جیسے سلامی دینے جاتے ہیں ۔ جو ملکی پرچم جلاتے ہیں افواج پاکستان کے خلاف نعرے لگوانے والوں سے وزارتوں کی بندر بانٹ کرتے ہیں جو کھاتے تو پاکستان کا ہیں مگر ایجنٹی بھارت ، امریکہ کی کرتے ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ راؤ جیسے لوگ ایسے ناسوروں کا قلع قمع ہوتا مگر یہاں صرف غریب عوام کا ہی استحصال کیا جاتا ہے۔ اب جب کہ نقیب محسود کے نان جوڈیشری قتل پر بنائی جانے والی تحقیقاتی کمیٹی نے نقیب شہید کو بے گناہ قرار دے دیا ہے اور اس کے قتل کو جعلی انکاؤنٹر قرار دیتے ہوئے راؤ انوار کی معطلی کی سفارش کرتے ہوئے اس کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا مطالبہ بھی کر دیا ہے اور ساتھ ساتھ دیگر جعلی مقابلوں کی تحقیقات اور کرپشن کی تحقیقات کروانے کی سفارش بھی اعلی حکام کو کر دی ہے۔ اور آئی جی سندھ نے راؤ کو عہدے سے برطرف کر دیا ہے اور اس کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کیلئے داخلہ کو خط لکھ دیا ہے۔اور اس کے ساتھی ایک اور آفیسر کو بھی معطل کر دیا ہے اور مزید تحقیقات کا حکم دے دیا ہے دوسری جانب چیف جسٹس نے بھی از خود نوٹس لیتے ہوٸے راؤ کے ایکسٹرا جوڈیشری کلنگ کا نوٹس لے لیا گیا ہےیوں راؤ کے گرد گھیرا تنگ کر دیا گیا ہے ۔ مگر یہ نا ہو کے جیسے موصوف کو کچھ برس قبل بھی برطرف کیا گیا تھا مگر بعد میں پیپلز پارٹی کی حکومت آنے پر موصوف کو عہدے پر ترقی دیتے ہوئےبحال کر دیا گیا اور پولیس گردی کیلئے آزاد چھوڑ دیا گیا اب پھر ویسا نہ ہو اور ایسے وقت میں پوری قوم کا مطالبہ ہے اعلی حکام سے سندھ حکومت اور پاکستانی حکومت وقت سے اور بالخصوص عدالت عالیہ سے کے قانون کے تقاضے پورے کرتے ہوئے راؤ انوار اور اس کی پوری ٹیم کو پاکستانی قوانین کے مطابق کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔
ہماری پاکستانی حکومت اور پاکستان کے سلامتی اداروں سے اپیل ہے کہ خدارا ملکی مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے ملکی جوڈیشری سسٹم کے ہاتھ مضبوط کریں اور پاکستان بھر میں لاپتہ افراد کو بازیاب کروا کر انکو عدالتوں میں پیش کریں اور اگر مجرم ہیں تو مجرموں کو کڑی سے کڑی عدالتی اور آئینی سزا سر عام دیں یقین کریں اس ملک کی ٢٢ کروڑ عوام آپکے ساتھ ہے اور وطن عزیز کی سالمیت کیلئے ہر لمحہ آپکے ساتھ کھڑی ہے مگر لا پتہ کیے جانے اور ماورائے عدالت قتل کیے جانے جیسے اقدامات لوگوں کے جذبات مشتعل اور شدید ذہنی و جسمانی اضطراب میں لا رہے ہیں۔ اور عام لوگوں کا اعتماد ہمارے عدالتی سسٹم سے اٹھتا چلا جا رہا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے آپ زینب اور اس جیسی دیگر تمام بچٕیوں کے قاتلوں کو گرفتار کریں اور ایسے مجرموں کو قانون کے مطابق سزا سناتے ہوئے سر عام سزا دیں تاکہ آئندہ کسی کی زینب اس ظلم کا شکار نہ ہو اور نا کسی نقیب کے معصوم بچوں کو یتیمی اور بیوی کو بیوہ ہو کر خون کے آنسو رونا پڑیں۔
ایسے میں ہم قابل تحسین سمجھتے ہیں عمران خان کو اور اسکی جماعت کو جس نے کوٸی مانے یا نہ مانے اس ملک کی قوم کو سیاسی شعور دیا ہےا اور انکے حقوق باور کرواتے ہوٸے حقیقی بڑی اپوزیشن کا کردار نبھایا ہے اور ملکی خزانہ بے دردی سے لوٹنے والوں کرپٹ نااہل اور سرٹیفاٸڈ چوروں کے اصل اور گھناٶنے چہرے بے نقاب کیے ہیں آج ایسے وقت پر بھی ہم عمران خان اور تحریک انصاف بالخصوص مراد سعید کو سلام پیش کرتے ہیں جس نے نقیب کے نا حق قتل پر آواز بلند کی ہے اور شفاف عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے یقیناً نقیب کی نان جوڈیشری کلنگ پر پوری پاکستانی عوام ضطراب کا شکار ہے اور درد میں شریک ہے۔
مجھ کو اس ظالم کا طرفدار نہیں لکھ سکتے
کم سے کم وہ مجھے لاچار نہیں لکھ سکتے
چارہ گری کے لیے بول رہا ہوں جو سچ
اس کو اس دیس کے اخبار نہیں لکھ سکتے۔


0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں