*پانی کی جنگ*
آصف شہزاد کے قلم سے
.قارئین محترم! میں پاکستانی قوم سے گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ملک میں پانی کی بڑھتی ہوئی کمی کے مسئلے پر غور فرمائیں۔ بھارت کی طرف سے ستلج اور راوی کی مکمل بندش کے بعد نہ صرف زرعی پانی کا بحران پیدا ہوگیا ہے بلکہ سابق ریاست بہاولپور کے تین اضلاع یعنی بہاولنگر، بہاولپور اور رحیم یار خان ستلج کے دائیں کنارے پاکپتن، وہاڑی اور لودھرںا میں بھی پانی کی کمی بڑھتی جارہی ہے۔ تربیلا اور منگلا انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت بن چکے لیکن اسی معاہدے کی روشنی میں کالا باغ ڈیم پر پانی کی جھیل بننی تھی جو خیبرپختونخوا اور سندھ کے لوگوں کی طرف سے اعتراضات کے باعث ابھی تک نہیں بن سکی۔ مجموعی طور پر پنجاب بالخصوص اس کے سبب زرعی پانی ہی نہیں بلکہ پینے کے پانی، جنگلی حیات اور ماحولیات کیلئے دریاﺅں میں دس بیس فیصد پانی نہ آنے کی وجہ سے شہری مسائل کا شکار ہوتاجارہا ہے۔ پینے کا پانی جو دریاﺅں کے گرد دس سے پندرہ فٹ گہرائی میں مل جاتا ہے اب کئی فٹ نیچے چلا گیا ہے۔ سارا سال چلنے والی نہریں اکثر بند ہوجاتی ہیں اور نئے زرعی علاقے پانی کی کمیابی کے باعث آباد نہیں ہورہے۔ یہ خیال کہ انڈس واٹر ٹریٹی پر دستخط کے بعد ہم اپنے ہاتھ کٹوا چکے ہیں سراسر غلط فہمی پر مبنی ہے۔ آیئے دیکھیں اس مسئلے کا قانونی پہلو کیا ہے۔ گزشتہ دنوں نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں ایک قومی سیمینار کے دوران میں نے کہا کہ بھارت ستلج، بیاس اور راوی کا سارا پانی بند نہیں کرسکتا، سندھ طاس کا معاہد ہ 1960 میں ہوا تھا،یہ تاثر غلط ہے کہ ہم نے دریا بیچ دیئے، ہم نے تو دریاﺅں کے زرعی پانی کا معاہدہ کیا تھا،سندھ ،جہلم اور چناب کا زرعی پانی پاکستان کے حصے میں آیا اور ستلج،راوی اور بیاس کا زرعی پانی انڈیا کے پاس چلا گیا،مگر بھارت ستلج ،راوی اور بیاس کا سارا پانی بند کر کے دریاﺅں کو مار رہا ہے ہم بھارت کی آبی دہشت گردی پر چپ نہیں بیٹھیں گے۔ میں نے کہا انڈیا تویہ بھی زیادتی کر رہا ہے کہ ہمارے حصے میں آنے والے دریاﺅں پر بھی زراعت کے لئے ڈیم بنا رہا ہے، لیکن ہمارے کسی نئے ڈیم کے خلاف مہم چلاتا ہے اور یہ پروپیگنڈا بھی کرتا ہے کہ پاکستان کو پانی کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ یہ ڈیم نہیں بناتا اور پانی سمندر میں پھینک کر ضائع کرتا ہے میں نے کہاکہ یہ انٹرنیشنل لا ءہے کہ دریاوں میں تھوڑا تھوڑا پانی چھوڑا جاتا ہے کیونکہ مکمل پانی بند ہونے کی وجہ سے پینے کا پانی بہت نیچے چلا جاتاہے اورآبی حیات اور ماحولیات کی بھی تباہی ہوجاتی ہے،ستلج مکمل خشک ہو چکا ہے، راوی اور بیاس میں پانی مکمل بند ہے، پاکستان بننے سے پہلے نواب آف بہاولپور نے ستلج ویلی پروجیکٹ کے تحت چولستان میں کچھ نہریں بنائیں، مگر ستلج کے مکمل بند ہونے کی وجہ سے وہ نہریں بھی تباہ ہوگئی ہیں اور بہاولپور،رحیم یار خان اور بہاولنگر اور پاکپتن،ساہیوال اور لودھراں متاثر ہوئے ہیں، نواب آف بہاولپور نے کہا تھا، چولستان اور ریاست کے باقی اضلاع پاکستان کی فوڈ باسکٹ ہوں گے مگر پانی نہ پہنچنے کی وجہ سے لاکھوں ایکڑ رقبہ بنجر پڑا ہے، بیکانیر ریاست اور بہاولپور کے درمیان بھی پانی لینے کا معاہدہ ہواتھا۔ انڈیا نے ستلج بند کیا تو ساری نہروں کا رخ راجھستان کی طرف موڑ کر اسے سرسبز شاداب بنا دیا گیا جبکہ چولستان ٹوٹل بنجر ہوچکا ہے۔
آصف شہزاد کے قلم سے
.قارئین محترم! میں پاکستانی قوم سے گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ملک میں پانی کی بڑھتی ہوئی کمی کے مسئلے پر غور فرمائیں۔ بھارت کی طرف سے ستلج اور راوی کی مکمل بندش کے بعد نہ صرف زرعی پانی کا بحران پیدا ہوگیا ہے بلکہ سابق ریاست بہاولپور کے تین اضلاع یعنی بہاولنگر، بہاولپور اور رحیم یار خان ستلج کے دائیں کنارے پاکپتن، وہاڑی اور لودھرںا میں بھی پانی کی کمی بڑھتی جارہی ہے۔ تربیلا اور منگلا انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت بن چکے لیکن اسی معاہدے کی روشنی میں کالا باغ ڈیم پر پانی کی جھیل بننی تھی جو خیبرپختونخوا اور سندھ کے لوگوں کی طرف سے اعتراضات کے باعث ابھی تک نہیں بن سکی۔ مجموعی طور پر پنجاب بالخصوص اس کے سبب زرعی پانی ہی نہیں بلکہ پینے کے پانی، جنگلی حیات اور ماحولیات کیلئے دریاﺅں میں دس بیس فیصد پانی نہ آنے کی وجہ سے شہری مسائل کا شکار ہوتاجارہا ہے۔ پینے کا پانی جو دریاﺅں کے گرد دس سے پندرہ فٹ گہرائی میں مل جاتا ہے اب کئی فٹ نیچے چلا گیا ہے۔ سارا سال چلنے والی نہریں اکثر بند ہوجاتی ہیں اور نئے زرعی علاقے پانی کی کمیابی کے باعث آباد نہیں ہورہے۔ یہ خیال کہ انڈس واٹر ٹریٹی پر دستخط کے بعد ہم اپنے ہاتھ کٹوا چکے ہیں سراسر غلط فہمی پر مبنی ہے۔ آیئے دیکھیں اس مسئلے کا قانونی پہلو کیا ہے۔ گزشتہ دنوں نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں ایک قومی سیمینار کے دوران میں نے کہا کہ بھارت ستلج، بیاس اور راوی کا سارا پانی بند نہیں کرسکتا، سندھ طاس کا معاہد ہ 1960 میں ہوا تھا،یہ تاثر غلط ہے کہ ہم نے دریا بیچ دیئے، ہم نے تو دریاﺅں کے زرعی پانی کا معاہدہ کیا تھا،سندھ ،جہلم اور چناب کا زرعی پانی پاکستان کے حصے میں آیا اور ستلج،راوی اور بیاس کا زرعی پانی انڈیا کے پاس چلا گیا،مگر بھارت ستلج ،راوی اور بیاس کا سارا پانی بند کر کے دریاﺅں کو مار رہا ہے ہم بھارت کی آبی دہشت گردی پر چپ نہیں بیٹھیں گے۔ میں نے کہا انڈیا تویہ بھی زیادتی کر رہا ہے کہ ہمارے حصے میں آنے والے دریاﺅں پر بھی زراعت کے لئے ڈیم بنا رہا ہے، لیکن ہمارے کسی نئے ڈیم کے خلاف مہم چلاتا ہے اور یہ پروپیگنڈا بھی کرتا ہے کہ پاکستان کو پانی کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ یہ ڈیم نہیں بناتا اور پانی سمندر میں پھینک کر ضائع کرتا ہے میں نے کہاکہ یہ انٹرنیشنل لا ءہے کہ دریاوں میں تھوڑا تھوڑا پانی چھوڑا جاتا ہے کیونکہ مکمل پانی بند ہونے کی وجہ سے پینے کا پانی بہت نیچے چلا جاتاہے اورآبی حیات اور ماحولیات کی بھی تباہی ہوجاتی ہے،ستلج مکمل خشک ہو چکا ہے، راوی اور بیاس میں پانی مکمل بند ہے، پاکستان بننے سے پہلے نواب آف بہاولپور نے ستلج ویلی پروجیکٹ کے تحت چولستان میں کچھ نہریں بنائیں، مگر ستلج کے مکمل بند ہونے کی وجہ سے وہ نہریں بھی تباہ ہوگئی ہیں اور بہاولپور،رحیم یار خان اور بہاولنگر اور پاکپتن،ساہیوال اور لودھراں متاثر ہوئے ہیں، نواب آف بہاولپور نے کہا تھا، چولستان اور ریاست کے باقی اضلاع پاکستان کی فوڈ باسکٹ ہوں گے مگر پانی نہ پہنچنے کی وجہ سے لاکھوں ایکڑ رقبہ بنجر پڑا ہے، بیکانیر ریاست اور بہاولپور کے درمیان بھی پانی لینے کا معاہدہ ہواتھا۔ انڈیا نے ستلج بند کیا تو ساری نہروں کا رخ راجھستان کی طرف موڑ کر اسے سرسبز شاداب بنا دیا گیا جبکہ چولستان ٹوٹل بنجر ہوچکا ہے۔


0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں