میں نے سپریم کورٹ کا ستاون صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ پڑھا ہے ۔جس میں آسیہ مسیح کو معصوم قرار دے کر بری کر دیا گیا ہے ۔لیکن اس کے فوراََ بعد ملک بھر میں احتجاج اور جلاؤ گھراؤ کا سلسلہ چل نکلا ہے ۔ سب کی زبان پر سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف نعرے ہیں اور سب ہی اس میں کورٹ کے فیصلے کو برا مان رہے ہیں ۔ ملک کے دانشور طبقے بھی اس کی انتہائی سخت الفاظ میں مذمت کر رہے ہیں جو لوگ سلمان تاثیر کے قتل کو غلط سمجھتے تھے ۔ان کے رویوں سے مجھے افسوس ہے کہ ان لوگوں نے سپریم کورٹ کا فیصلہ شاید پڑھا ہی نہیں یا یہ لوگ قحط العلم الرجال کا شکار ہیں ۔ حالانکہ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ اردو زبان میں جاری کیا جو آج ہر شخص پڑھ سکتا ہے چاہے وہ تعلیم یافتہ نا بھی ہو ۔میرے نذدیک آسیہ ملعون نے اگر گستاخی کی تو وہ سزا سے مسلمانوں کی وجہ سے ہی بچ گئی۔وہ کیسے ؟ آئیے اس پر چند نکات پر بات کرتے ہیں ۔
جو ایف آئی درج کی گئی اس میں لکھی تفصیل کے مطابق فالسے کے کھیت میں خواتین کام کر رہی تھیں ۔آسیہ مسیح نے مافیہ بی بی اور اس کی بہن کو پانی پیش کیاتو انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ہم عیسائی کے ہاتھ سے پانی نہیں پیتے ۔ اور اس طرح ان کی آپس میں تکرار شروع ہو گئی اس تکرار میں ان دو بہنوں کے مطابق آسیہ مسیح نے آپ ﷺکی شان میں نا زیبا الفاظ بکے ، جو میں شامل تحریر نہیں کر سکتا! نعوذ باللہ من ذالک۔ جس کے بعد ان دونوں بہنوں نے مدعی قاری سلام کی بیوی کو جا کر بتایا کہ آسیہ نے گستاخی کی ہے ۔قاری سلام نے جب متعلقہ تھانہ میں درخواست دائر کی تو یہاں ہماری پاس پہلا نقطہ آتا ہے اور وہ یہ کہ پولیس نے روایتی رپورٹ درج کی۔ ابتدائی مقدمہ میں تفتیشی مہدی حسن نے ایف آئی آرمیں لکھا کہ میں ایک پل پر کھڑا تھا کہ وہاں مجھے مولوی سلام نے درخواست دی جبکہ مولوی سلام نے بیان میں کہا کہ انہوں نے درخواست ایس ایچ او کو جا کر دی توہین رسالت کے کیس کی تفتیش ایس پی سے کم عہدے کا بندہ نہیں کرسکتا ۔ جس کے بعد ایس پی نے انکوائری کی لیکن وہ موقع پر گئے ہی نہیں اور انہوں نے سابقہ رپورٹ پر ہی اپنی رپورٹ بنا کر پیش کر دی ۔
آسیہ مسیح کی جانب سے کسی بھی کورٹ میں اقبال جرم نہیں کیا گیا بلکہ جو اس نے اقبال جرم کیا وہ جمعہ کے دن ایک مجمع میں کیا جس کے بارے میں گواہوں کے بیان مختلف تھے ۔ کوئی کہتا تھا کہ رزاق کے گھر جرگہ ہوا،تو کسی نے کہا علی احمد کے ڈیرے پر ہوا،کوئی کہتا تھا کہ رانا عبدالستار کے گھر ہوا۔ جرگہ کی حقیقت اگر مان لی جائے تو گواہوں کے بیانات کے مطابق کوئی کہتا وہاں اڑھائی سو بندہ تھا ، کوئی کہتا ہزار تھا ، کوئی کہتا دو ہزار تھا اور ایف آئی آر اس جرگے کے بعد درج کی گئی ۔جس میں دو وہ خواتین جن کے ساتھ جھگڑا ہوا تھا گواہ بنی اور دو مزید گواہ بنے ۔ دو مزید گواہ گواہی دینے ہی نہ آئے اور جرگے میں اگر اڑھائی سو بندوں کو مانا جائے تو ان میں سے محض چار پانچ بندوں کو بطور گواہ نہیں ڈالا گیا اور کسی کے بیان کسی موقع پر بھی قلم بند نہیں کئے گئے اور نہ ہی کسی نے کروائے ۔ مولوی سلام کے بیان کے مطابق اس نے درخواست کسی وکیل سے لکھوائی لیکن اس نے عدالت میں وکیل کا نام بتانے سے انکار کر دیا ۔ ان سب واقعات نے ،گواہیوں میں تضاد نے اور اس کے گستاخانہ کلمات کا سبب بننے والے جھگڑے کو چھپانے سے معاملہ عدالت کی نذر میں مشکوک ہو گیا ۔ اور آسیہ مسیح کو اس کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا گیا ۔اب یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ 2010 میں ایک عدالت نے آسیہ بی بی کو گستاخی کا مجرم قرار ٹھہرایا، لاہور ہائی کورٹ نے 2014 میں ٹرائل کورٹ فیصلہ درست قرار دیتے ہوئے مجرمہ کی سزائے موت بر قرار رکھی ۔ لیکن آج 2018 میں سپریم کورٹ نے مجرمہ کو بری کر دیا۔ آٹھ سال عدالتی فیصلہ کی نظر میں جو ملعونہ تھی اسے آج سپریم کورٹ نے معصوم قرار دے دیا ۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ تو میں ان کو بہت سادہ جواب دینا چاہوں گا کہ لاہور ہائی کورٹ اورٹرائل کورٹ نے گواہوں کے بیانات میں تضاد کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے صرف ایف آئی آر پر درج گستاخانہ الفاظ کی وجہ سے جذبات میں آکر فیصلہ دیا۔
ملعون آسیہ نے اگر گستاخی کی تھی تو اس کو سزا سے عدالت نے نہیں ان مسلمانوں نے بچایا جنہوں نے گواہی کیلئے اپنے نام نہیں دیئے ، جو گواہی سے منحرف ہو گئے ۔ درخواست لکھنے والے وکیل نے اپنا نام تک سامنے لانا گوارا نہیں کیا ۔ گستاخانہ کلمات کی ادائیگی سے پہلے جھگڑے کو یہ سوچ کر چھپایا گیا کہ کہیں ہم پر عیسائی مذہب کی توہین کا مقدمہ نہ چل پڑے ۔ ملک میں انتشار پھیلانے اور صورتحال ابتر کرنے والے وہ لوگ ہیں جو اندھی تقلید کرتے ہیں ۔ اسلام میں کسی بھی سزا کا عمل مستند شہادت پر دیا جاتا ہے ۔ جس میں گواہ کو گواہی کے دوران کوئی حقائق نہ چھپائے ، گواہوں کے بیان میں تضاد نہ ہو ، کوئی ذاتی عناد نہ ہو ۔توہین رسالتﷺ کے واقعات کی روک تھام کیلئے کردار کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔ نبی کریم ﷺ کی حرمت کے تحفظ کیلئے مذہبی اور سیاسی جماعتوں کو متحد ہو جانا چاہئے ۔ملعونہ آسیہ میسح کیس کے فیصلے کے بعد ملک میں جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اس موقع پر صحیح راستہ اختیار کرنے کی ذمہ داری تمام طبقات پر عائد ہوتی ہے کہ وہ تحفظ ناموس رسالت ﷺ کیلئے اپنی ذمہ داری ادا کریں ۔ یہ ایسا مسئلہ ہے کہ اس پر ہر مسلمان اپنا سب کچھ قربان کرنے کیلئے تیار ہے ۔ کلمہ طیبہ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا پاکستان دنیا کا ایسا ملک ہے جہاں توہینِ رسالت ﷺ کے واقعات کی روک تھام کیلئے باقاعدہ قانون موجود ہے ۔اس لئے تحفظ ناموس رسالت ﷺ کیلئے ایک واضح اور ٹھوس لائحہ عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔عدلیہ اور دیگر اداروں کو مل کر توہین رسالت ﷺ کے ہر راستہ کو بند کر نا چاہئے ۔ بین الاقوامی قوتیں چاہتی ہیں کہ پاکستان میں شانِ رسالت ﷺ میں گستاخیوں کے واقعات ہوں اور پھر یہاں فتنے برپا کئے جائیں ۔دھرنہ دینے والے عدالتی فیصلے کو عدالتی لحاظ سے درست کروائیں اور اس کیلئے نظر ثانی اپیل دائر کروائیں سوائے ا سکے کہ وہ ملک کو خراب کریں ۔ تاکہ تحفظ حرمت رسول ﷺ کا مقصد صحیح معنوں میں حل ہو سکے۔



0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں